بلین ٹری سونامی، مالم جبہ اور بی آرٹی کیسز کی دوبارہ تحقیقات کیخلاف حکم امتناع میں توسیع

05 اگست ، 2022

پشاور(نیوزرپورٹر) پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹرمحمد خورشید اقبال پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے بلین ٹری سونامی، مالم جبہ، بینک آف خیبر انکوائری اور بی آرٹی کے کیسز کی دوبارہ تحقیقات شروع کرنے کے خلاف دائر حکم امتناعی میں توسیع کردی اور نیب کو 19 اکتوبر تک کیسوں پر مزید کارروائی سے روک دیا ۔ے اس دوران جسٹس سید ارشد علی نے درخواست گزاروں کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے جو رٹ دائر کی ہے اس میں تو نیب کو کارروائی سے روکنے کی استدعا کی ہے حالانکہ نیب کو یہ چاہئے تھا کہ وہ پہلے اپنے بند کیسز دوبارہ شروع کرنے کے خلاف عدالت میں آتے مگر آپ لوگوں نے نیب کو ہی کارروائی سے روکنے کی استدعا کی ہے یہ تو اب نیب پر منحصر ہے کہ وہ آپ کے خلاف کارروائی کرتا ہے کہ نہیں،فاضل بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار اسداللہ وغیر کی جانب سے کیس کی پیروی قاضی جواد احسان اللہ قریشی ایڈووکیٹ ،صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل احمد بٹ، نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عظیم داد، ایڈیشنل ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل محمد علی اور وفاقی حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل توفیق حسین قریشی پیش ہوئے دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا 7 جولائی 2022 کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے بلین ٹری سونامی، ما لم جبہ، بی آر ٹی اور بینک آف خیبر میں بے قاعدگیوں سے متعلق دوبارہ انکوائری کا حکم جاری کیا تھا جو کہ غیرقانونی ہے ۔رٹ کے مطابق پبلک اکاونٹس کمیٹی نے 7 جولائی 2022 کے احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی محکمے کو دبارہ تحقیقات کی ہدایت دے۔ پہلے ہی اس حوالے سے کیسز عدالت میں زیرسماعت رہ چکے ہیں اور تحقیقات بھی مکمل ہو چکی ہے ۔قاضی جواد ایڈووکیٹ نے عالت کو بتایا کہ اس حوالے سے مالم جبہ کیس پشاور ہائیکورٹ نے نیب کے آرڈیننس کے سیکشن سی کے تحت بند کیا ہے جبکہ بینک آف خیبر سے متعلق کیس کی تحقیقات کے لئے اسٹیٹ بینک اف پاکستان کو لکھا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ بی آر ٹی کا کیس اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اختیارات صرف ان کیسوں میں ہے جو اسمبلی کی دوران ہو اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کا کام صرف اسمبلی کے رولز اف بزنس کے تحت کارروائی کرنا ہے نہ کہ کسی ادارے کو یہ کہنا کہ وہ دوبارہ کسی محکمے میں تحقیقات کرے کیونکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی نے صرف آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پر بات کرنی ہوتی ہے چونکہ یہ تمام کیسز عدالتوں میں ہے اس لئے اس میں پبلک اکاونٹس کمیٹی کسی قسم کا حکم جاری کرتی ہے تو وہ ماورا آئین اور اسمبلی بزنس کے خلاف ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کسی صورت ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی جس کا تعلق سول یا کریمنل پروسیجر سے ہو چونکہ یہ کیسز عدالت میں زیر سماعت رہ چکے ہیں اس لئے اس میں انکا اختیار نہیں بنتا ۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے ان کیسوں کی دوبارہ تحقیقات بدنیتی پر مبنی ہے اور اپنے اختیارات سے تجاوزہے اس دوران جسٹس سید ارشد علی نے درخواست گزاروں کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے جو رٹ دائر کی ہے اس میں تو نیب کو کارروائی سے روکنے کی استدعا کی ہے حالانکہ نیب کو یہ چاہئے تھا کہ وہ پہلے اپنے بند کیسز دوبارہ شروع کرنے کے خلاف عدالت میں آتے مگر آپ لوگوں نے نیب کو ہی کارروائی سے روکنے کی استدعا کی ہے یہ تو اب نیب پر منحصر ہے کہ وہ آپ کے خلاف کارروائی کرتا ہے کہ نہیں جس پر قاضی جواد نے عدالت کو بتایا کہ جب مذکورہ کمیٹی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو یہ ایک اہم کیس بن جاتا ہے چونکہ درخواست گزاروں کے خلاف ہی کارروائی ہونی ہے اور وہ پہلے ہی عدالت کے حکم پر بند ہوئی ہے اس لئے عدالت کے سامنے یہ رٹ پٹیشن لائی گئی ہے اور قاسم سوری کے کیس میں سپرپم کورٹ اس کےلئے اصول وضع کرچکی ہے جس پر جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ آپ اپنے درخواست گزاروں کے حقوق کا دفاع کریں اور انکے خلاف کاروائی کی استدعا کریں تاہم قاضی جواد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس سے اور بھی مسائل پیچیدہ ہونگے کیونکہ پہلے ہی سے ایک کا رروائی غیرقانونی ہے تو کس طرح ہم اس کو قانونی دائرہ کار میں لا سکتے ہیں بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا اور اس حوالے سے پہلے سے جاری حکم امتناعی میں 19 اکتوبر تک توسیع دے دی۔