اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 23 برس بیت گئے

05 اگست ، 2022

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں 4 اگست کو وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے۔ 1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا، یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ تاہم بعد ازاں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔