کتابیں کاپیاں مزید مہنگی!

اداریہ
05 اگست ، 2022
نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے دو ماہ پہلے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خور مافیا نے کاغذ کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمت میں جو ہوشربا اضافہ کیا اس سےاشاعتی اداروں کا اسکولوں کالجوں کی کتابیں کاپیاں مہنگی کرنا باعث تعجب نہیں۔ اگر صورتحال کو بروقت کنٹرول کرلیا جاتا تو آج کسی کو اسٹیشنری کی قیمتیں اس قدر بڑھانے کا جواز نہ ملتا جس کی آڑ میں اس اضافے کا تعین کاغذ کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے بھی زیادہ منافع کی شکل میں کیاجارہا ہے۔ ان حالات کے تحت اسکولوں کالجوں میں پڑھایا جانے والا کورس جو گذشتہ برس 6 ہزار روپے میں دستیاب تھا ،اب 10 سے 12 ہزار میں مل رہا ہے۔ یہ صورتحال غریب اور متوسط آمدنی والے دیہاڑی اور تنخواہ دار طبقے کےلئے ایک نئی پریشانی بن کر آئی ہے کیونکہ درسی کتب اپنی جگہ ، ابھی تعلیمی اداروں کی فیسوں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں ممکنہ اضافہ بھی ان کے اعصاب پر سوار ہے۔ جس طرح والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں جو ان کا بنیادی حق ہے ، اسی طرح ایک پڑھے لکھے اور فلاحی معاشرے کا تصور بھی رنگ و نسل اور طبقاتی تقسیم کی سوچ سے بالا تر ہے جس کا ادراک بہرصورت حکومت کی ذمہ داریوں کے زمرے میں آتا ہے تاہم قیام پاکستان کی ابتدائی دوتین دہائیوں کے بعد ملک میں مفت تعلیم کی فراہمی محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوئی اور آج معاشرے میں جہاں تعلیم کا شعور ابھرا ہے بدقسمتی سے یہ شعبہ ایک منافع بخش کاروبار اور تعلیمی کارخانے بن کر رہ گیا ہے ۔ سیاستدانوں اور حکمران طبقے کو باہمی کھینچاتانی سے باہر نکل کر اس پہلو پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت سرک جائے اور قوم کے لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998