بھارتی لابی اور ہم …

راجہ اکبردادخان
05 اگست ، 2022

جب بھی مسئلہ کشمیر پر یورپ کے ایوانوں میں بات ہوتی ہے یا اس بین الاقوامی مسئلہ پر احتجاج اور مظاہروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو یورپ میں آباد کشمیری ،پاکستانی کمیونٹیز ایک آواز پر باہر نکل آتی ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی یہ کمیونٹی اپنا حصہ ڈالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ فیملیز کی ا سکولوں میں چھٹیوں کے دوران اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرکے وہاں وقت گزارنا بھی ایک معمول ہے۔ یہ آمدورفت، یہ مظاہرے اور سیمینار ہمارےپڑوسی ملک کو اچھے نہیں لگتے کیونکہ کسی نہ کسی انداز میں ہماری کمیونٹیز کی یہ سرگرمیاں بھارت کے بہتر امیج کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ طویل عرصہ سے پاک بھارت ڈائیلاگ بند چلا آرہا ہے، پاکستان مقبوضہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کہ یہاں لوگوں کو بھارت حق خودارادیت دے پر قائم ہے جبکہ بھارت اس موقف کی نفی کرنے کی خاطر کبھی بلوچستان میں خونریزی کرواتا ہے اور کبھی پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ ہمارا ملک کشمیر میں دہشت گردی کرواتا ہے۔ یہ صورتحال پچھلے کئی برسوں سے چل رہی ہے اور دونوں ملک اپنے موقف پر قائم ہیں۔ یقیناً یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو دونوں ممالک کیلئے تکلیف دہ ہے۔ دونوں ملک اس ضمن میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر راستہ کسی کو نہیں مل رہا۔ بیرون ملک پاکستان کی کشمیر لابی بھارت کی نسبت زیادہ مضبوط ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر آل پارٹیز کشمیر کمیٹی ہے جو آئے دن حکومت سے کشمیر کی صورتحال پر سوال پوچھتے رہتے ہیں اور کشمیر پر دونوں ایوانوں میں سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ یہ سلسلہ بھارت کیلئے پریشان کن ہے۔برطانیہ موجودہ حکومت کیونکہ ای یو سے باہر نکل آئی ہے اور اسے معاشی حوالہ سے نقصانات کا سامنا ہے لہذا اسکے لئے دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ تجارت کو اوپر اٹھانا سمجھ میں آتا ہے۔ آسٹریلیا کے ساتھ ایک طویل مدتی تجارتی معاہدہ کے بعد برطانیہ اس کوشش میں ہے کہ اسی قسم کا معاہدہ بھارت کے ساتھ بھی ہو جائے اور اس پراجیکٹ پر پچھلے ایک برس سے کام ہو رہا ہے۔ برطانیہ اور بھارت دونوں آگاہ ہیں کہ یورپ میں کشمیر کمپین بڑا مضبوط اور متحرک ہے۔ دوسری طرف اس مسئلہ پر نہ ہوتی پیش رفت ان قوتوں کو ماحول فراہم کر رہی ہے جو مسئلہ کشمیر پر ’’پرانہ مسئلہ ہے بھول جائو‘‘ کے ماحول کو مضبوط کرنے پر کام کر رہی ہیں۔ ماضی میں برطانوی کمیونٹی اپنا اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ مسلمانان برطانیہ کی بڑی تعداد اپنے دین اور برصغیر میں اہم دینی مراکز سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہے اور ان مراکز پر حاضری ہماری اکثریت کے ایمان کا حصہ ہے۔ بھارت جہاں سیکورٹی کونسل کی مستقل سیٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں پر عمل نہ کرنے اور کشمیر کے اندر ہونے والے آئے روز کے ظلم و ستم کی وجہ سے تاحال دنیا بھارت کو یہ مقام دینے پر راضی نہیں ہو سکی ہے۔ بھارت پاکستان سے بھی تجارت کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان کا یہ موقف کہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر بھی بات ہوگی ایک اصولی اور خودار قوم کا موقف ہے۔ برطانیہ میں ہماری دینی اور سیاسی قیادت کو جہاں کہیں موقع ملتا ہے دوسرے ایشوز کے ساتھ کشمیر پر بھی بات کرتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئے کیونکہ کشمیر ایک قومی مسئلہ ہے جس پر ہم سات دھائیوں سے بات کرتے چلے آرہے ہیں۔ اکثر کشمیریوں کیلئے ان اجتماعات میں شرکت کرنا ممکن نہیں رہ جاتا جہاں پہلے سے پابندی عائد کردی جائے کہ کشمیر پر بات نہ ہو سکے گی۔ لوٹن میں منعقد ہوئے ایک حالیہ اجتماع میں جس میں شہر کی اشرافیہ موجود تھی بھارت میں برطانیہ کے کونسل جنرل جو حیدرآبادمیں متعین ہیں اور عالی مقام درسگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین بھی شریک ہوئے اور وہاں موجود حاضرین کے مطابق بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے، دینی مراکز تک رسائی آسان بنانے اور دیگر امور پر گفتگو ہوئی۔ کونسل جنرل نے واضح طور پر کہا کہ وہ ان دو مقاصد کا پیچھا کرتے ہوئے پورے ملک کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ حاضرین میں ایک معتبر فرد نے (بقول انکے) کہا کہ اس ریجن کے حوالہ سے اور بھی بہت سےمسائل ہیں جن پر کسی مختلف ماحول میں بات کرنا بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ تجارت پر گفتگو کرنی ہے۔ ہمارے برطانوی ڈیاسفورا کو کسی ایسی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہئے جو پاکستان کے موقف کی تائید نہ کرتی ہو۔ کشمیر کی آزادی پاکستان اور کشمیری کی مشترکہ خواہش ہے برطانوی کشمیری،پاکستانی کمیونٹیز سے اکثریت بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ لیکن ایسی کوئی عمارت مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر تعمیرنہیں کی جاسکتی کیونکہ اس مسئلہ کے منصفانہ حل کی خاطر ایک لاکھ کے قریب جانی قربانیاں پیش کی جاچکی ہیں۔ صرف پچھلے پندرہ برسوں کے دوران سیکڑوں کشمیری مرد اور خواتین ریاستی قید میں جیل کاٹ چکے ہیں اور آج بھی مختلف قوانین کے تحت لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ پیلٹ گنز کی گولیوں سے بڑی تعداد میں لوگوںکی بینائی جاتی رہی ہے۔ مسلم آبادی کے تناسب کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور حریت قیادت کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہاہے اور لبریشن فرنٹ کے قائد یٰسین ملک کو طویل مدت کیلئے جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اس قیادت سے جڑے متعدد لوگ کو تفتیش کے نام آئے دن جیلوں میں ڈال کر تشدد کے ذریعہ وفاداریاں تبدیل کروانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کشمیر میں بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں۔ بھارت تحریک آزادی کو دبا کر دنیا کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ کشمیر اچانک ایک پرامن خطہ بن گیا ہے جو حقیقت کے منافی ہے۔ 5 اگست 2019ء کو جس طریقہ سے کشمیر کی علیحدہ شناخت ختم کرکے اسے بھارت میں آئینی طور پر مدغم کر لیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں احتجاج کے باوجود بھارت اپنے اس عمل کو واپس کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایسے سیاسی اور سماجی تناظر میں بھارت نواز لابی متحرک ہو کر برطانیہ میں اس مسئلہ پر متحدہ کمیونٹی کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور 5اگست سے پہلے والی آئینی حیثیت بحال کی جائے کو توڑنے کیلئے نکل پڑی ہے۔ کیا ہمارے اداروں، معززین شہر اور کونسلر حضرات کو ایسے متنازع اجتماعات کی سرپرستی کرنی چاہئے جہاں کشمیر سے جڑےمعاملات پر بات نہ ہوسکے؟ ایک سنجیدہ سوال ہے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پرفیصلے کرنا ہونگے۔ برطانیہ میں مضبوط کشمیر لابی کو ٹورنے کیلئے جو بھی آوازیں اٹھیں گی انہیں کمیونٹی میں پذیرائی نہیں ملنی چاہئے۔ کوئی کشمیری آوازوں سے اتفاق یا اختلاف کرے یہ جمہوریت ہے۔ مگر اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ روکنے کی تمام کوششوں کی مذمت کی جانی چاہئے ہمارا یہ شہر تحریک آزادی کشمیر کے ایک بیس کیمپ کے طور پہچانا جاتا ہے۔ جو یقیناً قابل تعریف ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ برطانیہ میں تحریک کشمیر کو کمزور کرنے کا الزام ہم پر لگے کہ بھارت لابی کو اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں ہم نے مہیاکیں۔