اسلامی ممالک کو درپیش چیلنجز

سید عارف نوناری
05 اگست ، 2022
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ جاری رہا ہے، حال ہی میں حضورپاکﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی جس سے عالمِ اسلام میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام کی بین الاقوامی تنظیمیں مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں لیکن وہا ں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کو کبھی نہیں روکا جا سکا، مسلم دنیا کے بے شمار مسائل ہیں جن کے حل کے لئے اسلامی بلاک قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
دنیا بھر کے ممالک مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے جب کہ اسلامی ملکوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے اورسب اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں جس کے سبب اسلامی ممالک میں اتحاد و اتفاق کی کمی ہے، اسلام اور اسلامی ممالک کو تمام بلاکوں کے ممالک کسی نہ کسی طور پر نقصان پہچاتے رہتے ہیں جب کہ اسلامی ممالک خود بھی مسائل میں الجھے رہتے ہیں حالاں کہ اسلامی ممالک کے پاس قدرتی وسائل کی بہتات ہے، تیل، سونا اور دیگر دھاتوں کی بھی ان ممالک میں کوئی کمی نہیں ۔پاکستان میں رواں سال اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی کانفرنس ہوئی تھی اور اس کا دوسرا اجلاس حال ہی میں طلب کیا گیا ہے جس میں ان مسائل کو زیرِبحث لایا جانا ہے جس کا مسلمان ممالک کو اس وقت سامنا ہے اور جن کا حل ناگزیر ہےاور اس باب میں سوچ و بچار کر کے ہی کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا جانا ہے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے قیام کو نصف صدی کا عرصہ ہونے کا ہے، اس کی کارکردگی پراگر نظر ڈالی جائے تو یہ اپنے مقاصد کے حصول میں کا میاب نظر نہیں آتی،مغرب گزشتہ کئی برسوں سے اسلامی ممالک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی نظر سے دیکھ رہا ہے حالاں کہ غیر مسلم ممالک کو اس حقیقت کا علم ہے کہ اسلام نہ انتہا پسندی کی اجازت دیتاہے اور نہ ہی دہشت گردی کی لیکن دیگر عالمی تنظیمیں ان اسلامی ممالک کو دہشت گردی اور معاشی مسائل میں پھنسائے ہو ئے ہے اوروہ ان مسلمان ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبائے ہوئے ہیں۔ او آئی سی اعلامیے اور قرار دادیں پاس کرتی ہے لیکن دوسری عالمی تنظیمیں عملی طور پر اپنا کام کرتی ہیں، فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا حل او آئی سی کے ایجنڈے میں سر فہرست رہا ہےاور ہے، حقیقت مگر یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی غیرمعمولی آبادی کے باعث اس نے جان بوجھ کر اس شرمندگی سے بچنے کے لیے اس سال او آئی سی اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔ رواں سال او آئی سی اجلاس میں 675 مندوبین کے علاوہ 15 مبصرین نے شرکت کی۔ اسلاموفوبیا سمیت افغانستان و فلسطین کا معاملہ بھی زیرِبحث آیا لیکن موجودہ حالات کے محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے، اسلامی ممالک کو اپنی اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور یک جان ہو کر ان بلاکو ں کا مقابلہ کرنا چاہئے جو اسلامی ممالک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، او آئی سی دنیا کے اسلامی ممالک کی 2ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ 2 ارب مسلمانوں کے نمائندہ یہ ممالک بے بس و لاچار ہیں۔
او آئی سی دنیا بھر میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مسلم ممالک اور اقوامِ عالم میں افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے بھی سرگرم ہے جس سے اسلامی ممالک کی اجتماعی فکر کی عکاسی ہوتی ہے۔ اعلامیے میں اس سال کے آخر یا اگلے سال کے وسط تک تنازعات روکنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے طرٔیقہ کار طے کرنے کے لیے وزارتی اجلاس بلانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
عراق، افغانستان،کشمیر ، میانمار ، فلسطین اور شام میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے مگر مسلمان ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم موثر کردار ادا نہیں کرسکی۔ کانفرنس کے چارٹر میں حالاں کہ واضح طور پر یہ درج ہے کہ تما م ارکان اپنے باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے لیکن عملی طور پر اس کا مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ او آئی سی کو جو مسائل درپیش ہیں، ان کو کیسے حل کرنا ہے؟ ان رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جائے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے جس کے سبب اس تنظیم کے مقاصد پورے نہیں ہوپا رہے اور سب سے ضروری کام یہ ہے کہ اسلام کے خلاف جو طاقتیں سرگرم ہیں اور اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نام پر بدنام کر رہی ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے؟ اسلام کے تصورات واضح ہیں لیکن کچھ طاقتیںاسلام کے حقیقی تصور کو گہنا رہی ہے اوریہ حقیقی لمحۂ فکریہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)