سب سے پہلے پاکستان یا.....!

ڈاکٹر حسن فاروقی
05 اگست ، 2022
عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 14 اگست 1947 کو ہم آزاد وطن حاصل کرکے ہندو اور انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے تھے، یہی ہماری منزل تھی اور بس ! اس کامیابی پر ہم سب بہت شاداں ہیں اور اس خوشی کا اظہار ہم ہر سال اگست کے مہینے میں ضرور کرتے ہیں، چھت پر جھنڈا لہراتے ہیں۔ سائیکل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر پرچم آویزاں کرتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو قمیص کے ایک کونے پر قومی پرچم کا بیج سجا لیتے ہیں۔ اور زیادہ خوشی منانے کو من کیا تو دو چار ملی نغمے سن لیے اور بس ! پھر سارا سال اسی پرچم کی پامالی میں گزار دیتے ہیں ۔اس سال ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ یعنی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر پورا سال ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ 14 اگست کو جشنِ آزادی بھی شایانِ شان طریقے سے منایا جائے گا ۔ ہر کوئی ’’میں بھی پاکستان ہوں تُو بھی پاکستان ہے‘‘ جیسے جذبے سے سرشار ہو گا مگر کب تک ؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ عملی طور پر ہم پورا سال اپنی زندگی اس طرزِعمل سے مختلف گزارتے ہیں۔ جیسے رمضان المبارک کی طاق راتوں کو جاگ کر پھر پورا سال موجاں ای موجاں.....! کچھ ایسا ہی حال ہم وطن عزیز کے ساتھ بھی کر رہے ہیں۔
14 اگست گزرتے ہی ہم ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کو بھول کر’’سب سے پہلے اپنی ذات‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ متذکرہ بالا سطور میں جو پرچم کی پامالی کی بات کی گئی ہے تو یہ ضروری نہیں کہ کوئی براہِ راست ہی پرچم کی توہین کرے تو پامالی واقع ہوتی ہے بلکہ پاکستانی شہری اگر بیرون ملک غیر اخلاقی حرکت کرے یا کوئی جرم سرزَد کرے تو بھی سبز ہلالی پرچم کی پامالی ہوتی ہے ۔ اندرون ملک بھی جب کوئی اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کر کے پاکستانیوں کی جان کا دشمن بنتا ہے تو وہ دراصل سبز ہلالی پرچم کی پامالی کر رہا ہوتا ہے۔ رشوت لے کر نالائقوں کو اہم عہدے پر تعینات کرنا بھی پرچم کی پامالی ہے۔ افسروں کا غلط فیصلے کرنا، غلط تفتیش کرنا، غلط گواہی دینا، ناجائز مراعات، دھونس، دھوکے،اختیارات کا ناجائز استعمال، رشوت، اقربا پروری، کاروباری بددیانتی، فرائض میں کوتاہی علیٰ ھذا القیاس.....! سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ یہ سب کیا ہے؟ کیا اس سے قومی پرچم کی سربلندی ہو رہی ہے؟ کیا یہ سب سے پہلے اپنی ذات کے اصول کا مظاہرہ ہو رہا ہے یا پاکستان کا ؟ ہم اس کے باوجود چودہ اگست کو چھت پر پرچم ضرور لہراتے ہیں۔ قمیص پر بیج بھی لگاتے ہیں۔ اسی دوغلے پن اور منافقت کی وجہ سے ہم اب تک حقیقی معنوں میں آزادی کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکے۔ اسی دوغلے پن کی ایک اور مثال مجھے عید الاضحی کے دنوں میں دیکھنے کو ملی جب قومی اخبارات میں ایک اشتہار چھپا جس میں محکمۂ داخلہ حکومتِ پنجاب کی طرف سے عوام الناس کو مختلف تنظیموں کے حوالے سے متنبہ کیا گیا تھا کہ ان کو اپنے قربانی کے جانوروں کی کھالیں نہ دیں۔ میں نے ان تنظیموں کے ناموں کو بغور پڑھا جو نہایت اسلامی اور ملی مفہوم کے حامل تھے مگر نام اور کام میں اس قدر تفرقہ کہ توبہ توبہ۔ اسی دوغلے پن اور مذموم کارروائیوں کے باعث آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا،خیال رہے کہ آپریشن رد الفساد میں ایسی تمام تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انتہا پسندی یا دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔ اشتہارِ ہذا میں دی گئی تنظیموں کی تعداد چوراسی تھی جبکہ ان کی ذیلی تنظیموں کو بھی اگر شامل کیا جائے تو یہ پچانوے کے قریب بنتی ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ جب وطن عزیز کے اندر ہی اتنی منظم تنظیمیں مذموم سرگرمیوں میں ملوث ہوں گی تو ہمیں کہیں اور اپنے دشمن ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یقیناً یہ تنظیمیں سادہ پاکستانیوں کے ملی و دینی جذبات کیساتھ کھیل کر سب سے پہلے پاکستان کی بجائے اپنی ذات کا تحفظ کر رہی ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ یہ سب کچھ سبز ہلالی پرچم کی پامالی نہیں تو اور کیا ہے؟ موجودہ ملکی مسائل کا الزام ہم فوراً دوسروں پر دھر کر خود کو بری الذمہ شمار کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ سمیت عوام الناس بھی ملک کی ابتری میں برابر کے شریک ہیں۔ وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اپنے گریباں میں جھانکیں اور فی الفور اپنی اصلاح کریں۔ اپنی ذات کی بجائے سب سے پہلے پاکستان کا مفاد عزیز رکھیں۔ جب تک 22کروڑ عوام با شعور قوم نہیں بنے گی نہ ووٹ کا استعمال درست ہوگا نہ جمہوریت ثمرباور ثابت ہو گی اور نہ ہی حقیقی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا۔