رعایا اب ویسی نہیں رہی!

بابر علی رضا
05 اگست ، 2022
تین ہزار سال پرانی بات ہے، چین میں شینگ خاندان کی حکومت تھی۔ وہاں کا بادشاہ جب کبھی فتوحات کے لیے دوسرے علاقوں کا رُخ کرتا تو اپنے ایک مشیر وین کو ہمیشہ ساتھ رکھتا جو سائے کی طرح اس کی حفاظت کرتا۔ وین دریا کے پاس آباد ایک قبیلے کا سربراہ تھا اور بادشاہ کے بہت قریب تھا جس کی وجہ سے کئی درباری اس سے حسد کرنے لگے تھے۔ ایک دن بادشاہ کو اس کے وزیر نے بتایا کہ وین کا اثرورسوخ بہت بڑھ گیا ہے، کہیں آپ کے تخت پر ہی قابض نہ ہو جائے۔ بادشاہ اس کی باتوں میں آ گیا اور اس نے اپنے مشیر کو قید کروا دیا۔وَین کئی ہفتے قیدخانے میں بند رہا لیکن اس طرح کے کوئی شواہد نہ مل سکے جس سے اس کے بادشاہ بننے کی خواہش کی تصدیق ہو سکتی۔ سو، اسے رہا کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وین مر گیا اور اس کے بیٹے جس کا نام وُو تھا کو قبیلے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ وُو کو اپنے باپ کے ساتھ ہوئی ناانصافی یاد تھی جس کا بدلہ لینا ضروری تھا۔ سو، شینگ خاندان کے مقابلے میں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے اس نے دریا کے اردگرد ان چھوٹی ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جو بادشاہ کو ٹیکس دیتی تھیں۔
شینگ بادشاہ کو وزیر نے خبردار کیا کہ وُو کی طاقت بڑھ چکی ہے اور وہ کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے۔ بادشاہ نے اس خطرے کو ہوا میں اڑا دیا کہ آسمانی طاقتیں شینگ خاندان کے ساتھ ہیں اور یہ کہ اس کی بادشاہت کے لیے کوئی شخص خطرہ پیدا نہیں کر سکتا۔
دیوتاؤں کی حمایت پر اندھے یقین کی وجہ سے بادشاہ نے کبھی عوامی جذبات معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ خوشامدیوں میں گِھرا ہوا تھا اور معمولی بات پر لوگوں کو قیدخانے میں ڈال دینا اس کی عادت تھی۔کچھ عرصہ بعد وُو نے پچاس ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ چینی سلطنت پر چڑھائی کر دی۔ بادشاہ کے پاس پانچ لاکھ کی فوج تھی۔ اس نے اپنی سِپاہ کو وُو کے لشکر کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا حکم دیا۔ وُو کے سپاہیوں کو اپنے قبیلے کے سربراہ وین کے ساتھ ہونے والی زیادتی ابھی بھولی نہ تھی۔ چنانچہ وہ بے جگری سے لڑے اور چند ہی گھڑیوں میں وُو کی فوج کا پلڑا بھاری دِکھنے لگا۔ شینگ بادشاہ کو جب حالات خراب ہوتے نظر آئے تو اس نے قیدخانے سے لوگوں کو آزاد کر کے ہتھیار تھما دیے اور اپنے لیے لڑنے کا حکم دیا۔قیدی پہلے ہی بادشاہ اور اس کی حکومت سے تنگ تھے، وہ وُو کے ساتھ مل گئے اور ریاستی فوج پر دھاوا بول دیا۔ دیکھا دیکھی عام لوگوں نے بھی وُو کے سپاہیوں کی مدد کی۔ بادشاہ کے کئی ہزار سپاہیوں نے عوامی سپورٹ اپنے خلاف دیکھ کر وُو کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا اور یوں صرف پچاس ہزار لوگوں نے پانچ سو سال سے زائد حکومت کرنے والے شینگ خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ کر ڈالا۔
قارئین، ایک آئیڈیل بادشاہ اپنی رعایا کی نبض کو ہر وقت محسوس کرتا ہے۔ جب اس کا اپنی کارکردگی کی بجائے آسمانی طاقتوں پر تکیہ ہو اور حقائق کی جگہ چکنی چپڑی باتیں سننے کا اشتیاق ہو تو نتیجہ سیاسی ہلاکت کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ تاریخ میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جب ریاست میں عوامی غصّے کو حکمرانوں کے خون سے ٹھنڈا کرنا پڑا۔ حالات کی بے خبری نے انقلابِ فرانس کے دوران، بادشاہ لوئی کا گلا کٹوا دیا۔ بے اعتنائی پر الیگزینڈریا کے لوگوں نے اپنے بادشاہ ٹولیمی کی کھال کھینچ لی۔ عوام کی طبیعت کے خلاف اقدامات پر رومن ایمپیرر کیلی گولا کو اپنے ہی ساتھیوں نے قتل کر ڈالا۔ اس طرح کے واقعات ایسے حکمرانوں کے ساتھ ہوتے رہے جو رعایا کے مزاج، مشیروں کی عیّاریوں اور زمانے کے حالات کو رِیڈ نہ کر سکے۔ اس کے برعکس وہ بادشاہ جو لوگوں کی اپنے متعلق رائے اور زمینی حقائق سے آشنا تھے، مخالف ہوا کے باوجود مقبولیت حاصل کر گئے۔
جولیس سیزر نے جب روبیکون دریا کو عبور کیا تو وہ روم سے غدّاری کا مرتکب ہو چکا تھا لیکن اس نے اپنے لوگوں پر اتنی نوازشات کر دیں کہ اسے نہ صرف ایمپیرر بنا دیا گیا بلکہ سینیٹ نے اسے ایسا ڈکٹیٹر تسلیم کر لیا جس کے پاس فیصلوں کا مکمل اختیار تھا۔
لوگوں کی نظر میں اچھا حکمران وہی ہوتا ہے جو ان کی خوشحالی کے لیے فیصلے کرے۔ ماضی میں ہر وہ بادشاہ اپنی سلطنت کو کمزور کرتا رہا جس کو اس کے مشیروں نے ریاستی مسائل حل کرنے کی بجائے خوشامد پسندی پر لگا دیا۔ اپنی جھوٹی تعریف سن کر خوش ہونا اور بغیر تحقیق سب اچھا کی نوید پا کر پھولے نہ سمانا کمزور حکمرانوں کی بڑی نشانی ہے۔ معاشرے میں جب قابل افراد کو امورِ حکمرانی چلانے کے لیے سیاسی عمل میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا تو قوم کے مستقبل کے فیصلے کرنے کے لیے نااہل لوگ ہی باقی بچتے ہیں۔ کمزور حکمران انہی بچے کھچے لوگوں سے سامنے آتے ہیں۔ شینگ فیملی ہو یا مغل خاندان، تباہی اس وقت ملکوں کا مقدر بنی جب بادشاہ نے اپنے خون کو ریاست کے مفاد پر ترجیح دے کر موروثی سیاست کو پروان چڑھایا۔ بسترِ مرگ پر حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے عبداللہ کو کیوں خلیفہ نامزد نہیںکر دیتے تو آپ نے جواب دیا، ’’ وہ چوں کہ میرا بیٹا ہے، میں اسلامی ریاست میں موروثی عنصر شامل نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ کچھ عرصہ بعد جب اہل افراد کو نظر انداز کر کے اسلامی ریاست میں موروثیت کا عنصر شامل کیاگیا تو سٹیٹ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ میرٹ سے ہٹ کر خاندانی بنیادوں پر آیا شخص نہ تو عوام کی نبض سے شناسا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان کے احساسات کی زبان پڑھ سکتا ہے۔ آرام شاہ اور فیروز شاہ بالترتیب قطب الدین ایبک اور التّمش کے نالائق بیٹے تھے۔ دونوں کو رعایا کے معاملات سے خاص دلچسپی نہیں تھی۔ سو، چند ماہ میں ہی لوگوں نے انہیں تخت سے اتار پھینکا۔
لوگ ایسے شخص کو زیادہ دیر تک اپنا حکمران تسلیم نہیں کر سکتے جس کے سر پر صرف اس لیے تاج پہنا دیا گیا کہ وہ شہزادہ تھا۔ انہیں اب اس بات سے غرض نہیں کہ کون کس کا رشتہ دار ہے، وہ صرف کارکردگی چاہتے ہیں جس کو پَرَکھنے کے پیمانے بھی ان کے اپنے ہوتے ہیں۔ آج، رعایا ویسی نہیں رہی کہ شینگ بادشاہ کے خاتمے کے لیے کسی وُو کا انتظار کرے۔ لوگ اب خود ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں، اور ایسے موقعوں پر آسمانی طاقتیں اور دیوتا بھی عوام کی مخالفت نہیں کرتے۔ راجاپاکسے کی مثال آپ کے سامنے ہے۔