الیکشن کمیشن کا چالان آگے لیکر چلنا حکومت کی ذمہ داری ،محسن رانجھا

05 اگست ، 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ ن محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا چالان آگے لے کر چلنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، سابق صدر سپریم کورٹ بار جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا کہ عدلیہ میں ایشوز کو بہت بڑا بنالیا جاتا ہے، سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ عدالتوں میں جو ججز ہیں اب یہ کلب بن چکا ہے، وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ میں میزبان منیب فاروق سے بات چیت کررہے تھے۔ پروگرام میں اینکر پرسن عاصمہ شیرازی اور تجزیہ کار اطہر کاظمی نے بھی اظہار خیال کیا۔ پروگرام کا آغازکرتے ہوئے میزبان منیب فاروق کا کہنا تھا کہ اب یہ ”وہ لوگ “عمران خان کسے کہنا چاہ رہے تھے۔ عمران خان نے طبل جنگ بجادیا ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر کسی نے حقیقی طو رپر پولٹیکل فنڈ ریزنگ قانون اور قواعد کے مطابق کی ہے تو صرف پاکستان تحریک انصاف نے کی ہے۔ اس تمام صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے رہنما پاکستان مسلم لیگ ن محسن شاہ نواز رانجھا کا کہنا تھا کہ ہم کوئی چھلانگ لگانے نہیں جارہے جو کچھ وفاقی حکومت کررہی ہے یہ ایک پراسیس ہے اور اگر اس پراسیس کو نہیں کیا گیا تو کل کو پاکستان کے باقی ادارے وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ کارروائی آپ کو کرنی تھی آپ نے کیوں نہیں کی۔ اور ویسے بھی الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، کورٹ آف لاء تو سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ اور دیگر جوڈیشری ہے اور الیکشن کمیشن نے تو بنیادی طور پر اپنی تفتیش مکمل کرکے چالان بنادیا ہے جس کو آگے لے کر چلنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ڈوئل نیشنل ہیں اور کچھ تو ڈوئل نیشنل نہیں بلکہ فارن نیشنل ہیں اگر الیکشن کمیشن کی ہم لسٹ کو دیکھیں تو اس میں ڈوئل نیشنل بھی بہت ہوں گے اور ایسی کمپنیاں بھی شاید ایک دو مل جائیں جس کے اندر کہ ڈوئل نیشنل جو ہیں وہ ڈائریکٹرز ہوں ۔۔ ججوں کی تعیناتی معاملہ پر آنے والے تنازع پر میزبان منیب فاروق کا کہنا تھا کہ حالیہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ججوں کی تعیناتی معاملہ پر تنازع سامنے آیا، چیف جسٹس آف پاکستان کو پہلے دو جج صاحبان نے خط لکھا آج تیسرے جج جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی انہیں خط لکھ دیا ہے، اس خط کا متن سندھ ہائیکوٹ کے ججوں کی ساکھ کے حوالے سے ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا عدلیہ کو عوام میں ہر اختلاف ایکسپوژ کرنے کا کیا مطلب ہے، لوگوں کی داد رسی کی بجائے عدلیہ میں ایشوز کو بہت بڑا بنالیا جاتا ہے، جیوڈیشل کمیشن کی پروسیڈنگز پرائیویٹ ہوتی ہیں، تین ججوں کو جیوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض تھا تو وہ چیف جسٹس کو ذاتی طور پر خطوط بھیج سکتے تھے ، ان خطوط کو پبلک میں میڈیا پر ایکسپوژ کرنے کا مقصد نظر نہیں آرہا ہے، شاید انہوں نے سوچا کہ مقننہ اور انتظامیہ کے جھگڑ ے ٹی وی پر آتے ہیں تو ہم جیوڈیشری کے مسائل بھی سامنے لے آتے ہیں حالانکہ یہ بہت غیرمناسب بات ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا مسئلہ پرانا ہے، عدالتوں میں جو ججز ہیں اب یہ کلب بن چکا ہے، دیگر اداروں کے ساتھ عدالتوں میں بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے لوگ لانے کی کوشش کی جاتی ہے، عدالتوں میں سینئر ججوں کو نظرانداز کر کے جونیئر ججوں کو لایا جاتا ہے، جس طرح باقی ادارے تقسیم ہیں عدلیہ بھی تقسیم نظر آرہی ہے، سپریم کورٹ میں 14ججز ہیں لیکن وہ بھی اکٹھے نہیں چل پارہے، یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے اسے ٹھیک نہیں کیا گیا ملک کیلئے تباہ کن بات ہوگی۔عاصمہ شیرازی نے اپنی گفتگو میں کہا شیخ رشید کہتے ہیں کہ عمران خان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،اگست میں سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ جبکہ عمران خان کی دو تین دن کی تقاریر میں بھی انہوں نے قبل از انتخابات کی بات نہیں کی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ وہ مطالبہ جو پچھلے کئی دنوں سے تحریک انصاف کررہی تھی اچانک ہی وہ غائب ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو نظر آرہاہے کہ انتخابات اگست 2023میں ہوں گے اور اگر واقعی پی ٹی آئی جلدی انتخابات میں جانا چاہتی ہے تو پنجاب اور کے پی اسمبلیوںکو توڑ کر وہ انتخابات میں جاسکتے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی پر شدید قسم کا دباؤ ہے اور یہ وہ دباؤ ہے کہ انہوں نے جو پلاننگ خود کی تھی معاملہ اس کے برعکس ہوچکا ہے اور اب موجودہ حکمران اس پوزیشن میں نظر آرہے ہیں کہ وہ مرحلہ وار الیکشن کرواکر ایک آرام دہ پوزیشن میں آجائیں۔ اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جو ریفرنس واپس لیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس میں مزید کچھ چیزوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوجائے گا ۔ انہوں نے کہا اصل بات یہ فیصلہ ہے اس میں جس قسم کی چیزیں ہیں اس سے نہیں لگتا کہ عمران خان کوئی دفاعی انداز اختیار کریں ۔