راوی میں ہر10 کلومیٹر پر دیوار، سستا ترین ڈیم بنانے کا فارمولہ

05 اگست ، 2022

فیصل آباد (شہباز احمد) مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی اموات اور معاشی تباہی نے ایک مرتبہ پھر بارشی پانی کے بہتر استعمال کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے اور اسے زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچاج کرنے کے لئے استعمال کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر سال جب بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑا جاتا ہے اس سے یا تو سیلاب کی صورت میں جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر یہ سارا پانی سید ھا سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔بارانی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رائے نیاز"واٹر مینجمنٹ " کے حوالے سے عالمی شہرت کے حامل ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں خدمات سرانجام دینے کے علاوہ کئی عالمی اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ان کی ماہرانہ رائےیہ ہے کہ اگر دریائے راوی میں ہر دس کلومیٹر کے فاصلے پر دیواریں بنا کر پانی کو ذخیرہ کر لیا جائے اور "ڈی سلٹنگ" کے لئے ان دیواروں کے نیچے کھلنے اور بند ہونے والے گیٹ بنادیئے جائیں تو اس سے ناصرف دریائے راوی کو دوبارہ سے بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے کنارے بنائے جانے والے مجوزہ رہائشی و کمرشل منصوبوں کو بھی بے انتہا فائدہ ہو گا جس سے یہاں پر بنکاک اور دبئی کی طرز پرسرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جا سکے گا۔ واضح رہے کہ راوی کی مجموعی لمبائی 720 کلو میٹر ہے اور یہ دریاانڈیا کے صوبے ہماچل پردیش سے شروع ہو کر 80 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد پاکستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور پھر جھنگ میں سمندوآنہ کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر رائے نیاز کے مطابق سیلاب اور بارشوں کے پانی کو دریاؤں میں ذخیرہ کرنے کے علاوہ اسے دریاؤں کے ساتھ ساتھ مصنوعی جھیلیں بنا کر بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جو کہ کم خرچ اور جلد فائدہ پہنچانے کا باعث بنے گا ۔ اس سے پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور خشک سالی کے دورمیں اس پانی کو زراعت ودیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ یہ اقدامات کرنا اس لئے بھی ضروری ہوچکا ہے کہ اس وقت پاکستان کے آبی ذخائر 140 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر65 ملین ایکڑ فٹ رہ گئے ہیں۔