PTIعہدیداروں کیخلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے، خواجہ آصف

05 اگست ، 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کےاہم عہدیداروں کیخلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے،ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے کہا کہ حکومت پی پی او میں فارن ایڈڈ سیاسی پارٹی کی شق کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے، ماہر قانون و سینئر تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ نواز شریف کیلئے جو معیار طے کیا گیا تھا وہی فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کیلئے کیا جائے تو یہ 62ون ایف کا کیس بنتا ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے مزید کہا کہ فارن فنڈنگ فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہماری قانونی ذمہ داری ہے، فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا او رشواہد فراہم کیے، اگر اس کیس میں کچھ نہیں تھا تو پی ٹی آئی نے آٹھ نو دفعہ التواء کیوں مانگا، فواد چوہدری اور شیخ رشید نے کہا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہمارے حق میں آیا ہے، ڈیکلیرشن میں ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے پر پورا انحصار کریں گے،ہم ڈیکلریشن میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہیں کریں گے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سات آٹھ افراد وہ اکاؤنٹس آپریٹ کرتے تھے جن میں باہر سے پیسے آتے تھے ، ان لوگوں میں سے کچھ اس وقت مقتدر عہدوں پر فائز ہیں، پی ٹی آئی کے ان لوگوں کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے جو مقتدر عہدوں پر ہیں، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے ایسا لگے کہ آئین و قانون کی حدود پار ہوئی ہیں،ہم کسی کو سیاسی طورپر انتقام کا نشانہ ہرگز نہیں بنائیں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کیلئے سکندر سلطان راجہ کے نام کی چٹ دی گئی یہ پرویز خٹک سے پوچھا جاسکتا ہے، سکندر سلطان راجہ کے نام پر نیوٹرلز سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، نواز شریف کی رہنمائی اور پارٹی مشاورت سے سکندر سلطان راجہ کے نام پر اتفاق کیا گیا، پی ٹی آئی نے پہلے بابر یعقوب کا نام دیا تھا جو 2018ء کے الیکشن کے وارداتیے تھے، عمران خان نے پہلے سکندر سلطان راجہ پر اعتماد کا اظہار کیا مگر جب مفادات کو نقصان پہنچا توا پنی رائے بدل دی، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پی پی او 2002ء میں آئین سے ہٹ کر کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا تھا، اس میں لکھا گیا کہ فارن ایڈڈ سیاسی پارٹی اور پاکستان کی سا لمیت کیخلاف کام کرنے والی پارٹی کو تحلیل کیا جاسکتا ہے، حکومت پی پی او میں فارن ایڈڈ سیاسی پارٹی کی شق کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے، حکومت کہتی ہے کہ تحریک انصاف نے غیرملکیوں سے پیسہ لیا اس لیے اسے تحلیل کردیا جائے، میری نظر میں اگر کوئی سیاسی جماعت ایسا پیسہ یا اتنی مقدار میں پیسہ لیتی ہے جس کی وجہ سے اس نے ملکی سا لمیت کیخلاف کام کیا تو اسے تحلیل کیا جاسکتا ہے، آئین میں کسی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کیلئے جو جواز دیا گیا ہے عام قانون سازی کے ذریعہ اس کے علاوہ کوئی جواز نہیں دیا جاسکتا ہے۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62ایف کے حوالے سے جو معیار نواز شریف کے مقدمہ میں لگایا گیا وہی معیار عمران خان کے معاملہ میں لگایا جاتا ہے تو پھر 62ون ایف کا کیس بن سکتا ہے، میر ی نظر میں وہ معیار نہ اس وقت درست تھا نہ اب درست ہے، منیب فاروق نے کہا کہ غیرملکی فنڈنگ کے معاملہ میں دیکھنا ہوگا کہ کیا اتنا پیسہ باہر سے آیا جس سے کسی پارٹی کی فیصلہ سازی متاثر ہو ئی یا وہ پاکستان کی سا لمیت کیخلاف کام کررہی تھی، اس سے متعلق فیصلہ کورٹ آف لا ء کے فورم پر ہی ہوسکتا ہے، پی پی او 2002ء میں الیکشن کمیشن کے پاس وفاقی حکومت کو ریفرنس بھیجنے کا اختیار نہیں ہے البتہ 2017ء کے قانون میں یہ گنجائش موجود ہے، وفاقی حکومت مناسب سمجھے تو وہ کسی سیاسی پارٹی کیخلاف ڈیکلریشن کرسکتی ہے، عمران خان کی یہ بات درست نہیں ہے کہ پی پی او 2002ء میں کمپنیوں سے پیسہ لینے کی ممانعت نہیں تھی، نواز شریف کیلئے جو معیار طے کیا گیا تھا وہی فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کیلئے کیا جائے تو یہ 62ون ایف کا کیس بنتا ہے۔