From The Horse's Mouth

محمد بلال غوری
22 ستمبر ، 2022
انگریزوں کے ہاں گھوڑوں کی کہی بات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اسلئے جب کسی بات کی سچائی کا ثبوت دینا ہو تو کہا جاتا ہے یہ بات سیدھی گھوڑے کے منہ سے نکلی ہے یعنی straight from the horse's mouth۔میں نے سوچا کیوں نہ وقت نکال کر ایوان صدر اور آس پاس کے وی آئی پی گھوڑوں سے بات کرکے حالات حاضرہ سے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کی جائے۔منصوبے کے مطابق ایوان صدر میں داخل ہوا تو ایک گھوڑے نے مجھے دیکھ کر زور زور سے ہنہنانا شروع کر دیا،میں نے پوچھا ارے او کم بخت اپنی بدصورت چھتیسی نکال کر کیوں ہنس رہے ہو؟کہنے لگا،میں تو بس تم لوگوں کی حالتِ زار پہ ہنس رہا ہوں۔میں نے اس کی طنزیہ مسکراہٹ نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ،پیٹرول کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے۔ کیا خیال ہے، ہم موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بیچ کر گھوڑے نہ خرید لیں؟ اس نے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا ،لگتا ہے تمہارا دماغی توازن درست نہیں ۔دنیا کے وہ پانچ ممالک جو گھڑ دوڑ کے حوالے سے مشہور ہیں ان میں ایک پاکستان ہے۔یہاں گھوڑے گاڑیوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔ پاکستانی گھوڑے کی قیمت 20 لاکھ روپے تک جاپہنچی ہے اور اسپین کا مستنگ (mustang)گھوڑا جس کے نام پر ایک ہسپانوی کمپنی نے دنیا کی تیز رفتار گاڑی بھی بنائی ہے اس کی قیمت ایک کروڑ30 لاکھ روپے ہے۔ریس کے لئے تیار کئے جانے والے گھوڑوں کو کھلائے جانے والے بادام،سیب،مربے اور کشتہ جات کی تفصیل تمہیں بتا دوں تو تم بھی کہیں سے جھوٹا سرٹیفکیٹ بنوا کر گھوڑوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرتے نظر آئو۔ریس کے گھوڑوں کا فی کس یومیہ خرچہ کم از کم بیس ہزار روپے ہے ۔جب ریس قریب آتی ہے تب تو اخراجات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور تم سوچ رہے ہو کہ گھوڑوں کو سواری کے لئے استعمال کیا جائے؟ ہماری یونین تو گھوڑوں اور گدھوں میں فرق روانہ رکھنے اور گھوڑوں کو باربرداری کے لئے استعمال کرنے کے خلاف تحریک چلانے پر غور کر رہی ہے۔چند روز قبل راولپنڈی ریس کلب کے گھوڑے آئے تھے،ایوان صدر میں رات بھر جاری رہنے والے اس مشاورتی اجلاس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے کہ گھوڑوں کو تانگوں کے آگے جوت دینا ،ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے،گھوڑوںکو گھاس کھلانا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اور پتہ ہے اس روز ایک سویلین گھوڑے کو ڈانٹ پڑ گئی اس لئے اب ہنہناتا پھر رہا ہے۔
میں نے اسکی فضول باتوں پر توجہ دینے کے بجائے بحر خیالات میں سوچ کے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے ہوئے پوچھا ، یار یہ بتائو،آخر تمہیں کس بات پر ناز ہے؟چند سال پہلے تک تو تمہیں کوئی پوچھتا نہیں تھا، تمہاری اوقات کاٹھ کے گھوڑوں جتنی بھی نہیں تھی اور آج تم بڑے طرم خان بنے پھرتے ہو۔گھوڑے نے کھا جانے والی نظروں سے تکتے ہوئے جواب دیا، تمہیں شاید تاریخی حقائق کا علم نہیں۔تم نے ’’اسپ لیلیٰ‘‘ کا نام سنا ہے؟ ’’اسپ لیلیٰ‘‘ پشاور کے حاکم یار محمد خان کی مشہور گھوڑی کا نام تھا جس کے چرچے چار دانگ عالم تھے۔شاہ ایران نے اس کی منہ مانگی قیمت دینے کی پیشکش کی ،شہنشاہ روم نے بھی خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی مگر یار محمد خان ’’اسپ لیلیٰ‘‘کو کسی قیمت بیچنے پر رضامند نہ ہوا۔اس وقت پنجاب پر راجہ رنجیت سنگھ کی حکمرانی تھی اور بادشاہی مسجد میں اسکے گھوڑے بندھے رہتے تھے۔رنجیت سنگھ گھوڑوں پر اس قدر فریفتہ تھا کہ کئی ریاستوں پر حملہ ہی گھوڑوں کے حصول کے لئے کیا گیا۔رنجیت سنگھ کو اس گھوڑی کی بھنک پڑی تو اس نے اپنے جرنیلوں کو بھیجا کہ والی پشاور ’’اسپ لیلیٰ‘‘دینے پر رضامند نہ ہو تو شہر پر قبضہ کر کے گھوڑی چھین لو۔جب یار محمد کو خبر ہوئی تو وہ تخت و تاج چھوڑ کر کابل فرار ہو گیا تاکہ اسکی قیمتی گھوڑی نہ چھن جائے۔ بعد میں یار محمد نے جھوٹ بولا کہ’’اسپ لیلیٰ‘‘ مر گئی ہے۔رنجیت سنگھ کا جھگڑا گھوڑی کی وجہ سے تھا لہٰذا اس نے پشاور کی حکمرانی پھر سے یار محمد خان کے سپرد کر دی۔کچھ عرصہ بعد رنجیت سنگھ کواس جھوٹ کا علم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ اور جنرل ونتورا کو س کی سرکوبی کیلئے بھیجا۔اس بار یار محمد خان تخت چھوڑ کر شاہ احمد بریلوی سے جا ملا۔اندرونی خلفشار کے باعث یار محمد خان کی موت واقع ہو گئی اور یوں وہ گھوڑی مہا راجہ کے اصطبل جا پہنچی۔یہ تو ایک گھوڑے کی عظمت بیان کی ہے ورنہ گھوڑوں سے انسانوں کے عشق کی داستانیں تو بہت ہیں ،تم سنو گے تو دنگ رہ جائو گے۔
میں نے بات کا رخ موڑتے ہوئے پوچھا، اچھا یہ بتائو،راولپنڈی اور آبپارہ والے تم گھوڑوں پربرسہابرس سے کاٹھی ڈالتے آرہے ہیں ،تمہیں برا نہیں لگتا۔ایک گھوڑا جذباتی ہوکر کہنے لگا،ارے صاحب !کیا بتائیں ،صرف یہی نہیں، ایوانوں میں ہارس ٹریڈنگ کے نام پر بھی بدنام کرتے ہیں مگر ہمیں کاٹھی ڈالنے پر غصہ نہیں آتا ،غصہ تو واقعی بہت آتا ہے۔ایک اور گھوڑا کہنے لگا،ہم گھوڑے نہیں دراصل بھگوڑے ہیں ،اسی لئے یہ سزا بھگت رہے ہیں۔مجھے بھگوڑے کا لفظ سن کر حیرت ہوئی اور وضاحت چاہی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا،ہم جنگلوں میں رہتے تھے آزادی کے ساتھ۔اچانک کچھ نوجوان گھوڑوں نے بغاوت کر دی ۔وہ کہتے،جنگل میں کیا رکھا ہے،کیا ساری زندگی گھاس کھاتے رہیں گے؟ ہمیں بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے کا حق حاصل ہے۔ایک دن ہم نے سوچا کہ رات کی تاریکی میں جنگل چھوڑ کر شہر چلے جائیں گے اور وہاں جا کر عیش کریں گے۔بس یہ نا آسودہ خواہشات ہمیںاپنا وطن چھوڑ کر شہر لے آئیں اور ہم اپنی آزادی گروی رکھنے کی غلطی کر بیٹھے۔اگر تم میری طرف سے انسانوں کو ایک پیغام دیدو تو میں تمہارا شکرگزار ہوں گا،ان سے کہو،گھوڑے سدھانے اور ریس میں بھگانے کے بجائے اپنی ہوسِ اقتدارکے گھوڑے کو لگا م دےدو تو پاکستان سدھر جائے گا۔