کنگڈم کو ہسٹری میں جینا چاہئے ؟

افضال ریحان
22 ستمبر ، 2022

آئین، جمہوریت اور انسانی عظمت ووقار پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص اگر کسی کنگ یا کوئین کی مدح سرائی میں قلم اٹھائے تو بلاشبہ کچھ عجیب ہی نہیں برا بھی لگتا ہے لیکن اگر وہی کنگ یا کوئین عوام کو طاقت و اقتدار کا منبع وسر چشمہ تسلیم کرتے ہوئے ان کی عظمت و ساورنٹی کے سامنے سرنگوں ہو جائے تو پھر نفرت، حقارت یا بدتمیزی کا کوئی خاص جواز نہیں رہتا پھر بھی برٹش منارکی کے وجود یا عدم پر بحث ہوتی رہنی چاہئے ۔برٹش امپیریلزم کی داستان بڑی طویل ہے رومن ایمپائر کی خاک پر برٹش ایمپائر کیونکر وجود میں آئی اور اس کو دنیا میں کس طرح ایسا عروج نصیب ہوا کہ یہ دنیا کی ایسی یونیک ایمپائر بنی جس پرکبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے لیکر کینیڈا اور امریکہ تک دنیا کے چھ براعظموں پر یہ سلطنت چھائی ہوئی تھی۔ دنیا کی عظیم الشان تہذیبیں اور ممالک و اقوام اس کے زیر سایہ یا حلقۂ بگوش تھے بلاشبہ کچھ زیادتیاں ان کے ہاتھوں بھی سرزد ہوئیں بعد میں آنے والے جن کا اعتراف کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ معافی کے خواستگار رہے، ناچیز کا انگریز دوست ٹم گرین بتا رہا تھا کہ’’ ہم اپنے بزرگوں کی جارحیت کو اپنی نئی نسلوں کے سامنے خوشنما بنا کر پیش نہیں کرتے بلکہ قبضہ گیری کی مذمت کرتے ہوئے جیسی وہ تھی ویسی ہی پیش کرتے ہیں،‘‘ البتہ درویش یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ اس کی دعائیں ہمیشہ برٹش ایمپائر کے شامل حال رہیں کیونکہ اس نے عالمی تہذیبوں یا دنیا سے جو کچھ لیا اس سے کئی گنا زیادہ انہیں واپس کیا، خواہ تہذیب و جمہوریت اور آگہی کی صورت میں یا انفراسٹرکچر کی شکل میں ۔مختصر کالم کا مدعا فوت ہو رہا ہے اس لئے 1215کے میگناکارٹا سے ہوتے ہوئے ہم 8ستمبر یا 18ستمبر پر آتے ہیں۔ میگنا کارٹا وہ گریٹ چارٹر آف ہیومینٹی ہے جس نے ہیومن ہسٹری کو دو حصوں میں بانٹ دیا ، جو ہیومن رائٹس کا اولین زینہ یا سنگ میل ہے بلاشبہ اتار چڑھائو مابعد آئے کنگ جان ہنری تو اگلےبرس ہی مر گیا لیکن کنگ پر روک لگاتے ہوئے ہائوس آف لارڈ یا امرا کے راستے دارالعوام یا پارلیمینٹ کی راہیں عوامی اتھارٹی کیلئے کھلتی چلی گئیں ۔برٹش یا مغرب کو نہ صرف اپنی اقوام بلکہ اقوام عالم کیلئے یہ ابدی اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے پرامن انتقال اقتدار کا نہ صرف سبق پڑھایا بلکہ بالفعل رہنمائی بھی کی ۔آج نہ صرف امریکی یا کینیڈین آئین بلکہ دنیا بھر کی آئین سازی میں ہیومن رائٹس یا ہیبیس کارپس کی بدولت کسی بھی انسان کو بلاجواز پکڑا نہیں جائے گا جیسی بنیادیں میگنا کارٹا اور اس کی اپروچ نے پوری دنیا کو فراہم کر رکھی ہیں۔آج کوئین الزبتھ کو جو عقیدت پیش کی گئی ہے یہ اس کی فوج، توپوں یا تلواروں کے باعث نہیں بلکہ عوام سے محبت و خدمت کی بدولت ہے کنگ چارلس یا پرنس ولیم کی چمک دمک عوام اور پارلیمینٹ کی مرہون منت ہے اور اس کا خاتمہ پارلیمینٹ کے ایک ایکٹ کی مار ہے درویش کو یہ شکایت ضرور ہے کہ برٹش عوام کا پیسہ رائل فیملی پر یوں بے دریغ خرچ نہیں ہونا چاہئے ،ان پر بھی ٹیکسز اسی طرح لگنے چاہیں جس طرح عام برٹش عوام پر لگتے ہیں، کوئین کی میت کو لیکر بینڈ باجے کےساتھ لندن کی سڑکوں پر یوں مارچ کیا جا رہا تھا جیسے جنازہ نہیں کوئین کی شادی ہو یا تخت پوشی، بیچارے اہل کار سارا دن سڑکوں پر رلتے رہے ایسی لاحاصل نمائشوں اور عیاشیوں پر پارلیمینٹ کی طرف سے کٹ لگنا چاہئے ۔دوستوں نے اس حوالے سے پوچھا تو کہا کہ’’ انگریزوں کی ماں مر گئی ہے وہ اسے بڑا کر رہے ہیں۔‘‘ ہمارے دیہی کلچر میں جب کوئی بزرگ کھا ہنڈا کر اتنی عمر پا کر جائے تو اسے بڑا کرنا کہتے ہوئے خوشی کے ساتھ روانہ کیا جاتا ہے اور پھر کوئین الزبتھ نے تو اپنی پیدائش 21اپریل 1926سے لیکر 8ستمبر 2022تک شاید ہی کوئی صدمہ دیکھا ہو سوائے اس کے کہ 6فروری 1952 کو جب ان کے والد کنگ جارج viکی وفات ہوئی تو ان کی عمر محض پچیس برس تھی یوں اس وقت جب انہیں کوئین بنایا گیا تو وہ32ریاستوں کی ملکہ تھیں جن میں ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی شامل تھا اور آج جب فوت ہوئی ہیں تو 15ریاستوں کی آئینی سربراہ تھیں، ان کی والدہ محترمہ جنہیں مادر ملکہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ایک سو دو برس زندہ رہیں ان کے شریک حیات پرنس فلپ جن سے انہوں نے عشقیہ یا من پسند شادی کی تھی ایک برس قبل 99سال کی عمر میں دنیا سے سدھارے۔ (جاری ہے)