میٹنگ کے بارے میں خاکوانی سے پوچھیں کہاں سے انفارمیشن آئی،صدر علوی

22 ستمبر ، 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدرعارف علوی نے کہا ہے کہ مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو وفاداریاں بدلتے ہیں،بعض کرائسز میں تو لوگوں نے تو آئین کو بھی لپیٹ دیا ہے اور اس سے کتنا نقصان ملک کا ہوا،معیشت کی پالیسی کا تسلسل بہتر ہو تو معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں،اس سوال پر کہ آپ نے کہا کہ خبروں میں اکثر فیک نیوز ہوتی ہے ، آپ صدر ہاؤس میں موجود ہیں وہاں یہ کہا گیا کہ وہاں آپ نے ایک میٹنگ کروائی ہے بڑی اہم ، اور آپ کے اسحاق خاکوانی نے آن ایئر بات کہہ دی صدر عارف علوی نے کہا کہ یہ خاکوانی صاحب سے پوچھیں کہاں سے انفارمیشن آئی ہے، میں اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میں نے تو اس پر کوئی بات ہی نہیں کی آپ سے کہ میں کیا کوششیں کر رہا ہوں اگر ایک بات کروں گا یا ایک بات سے انکار کروں گا ایک بات کی حامی بھروں گا تو پھر وہ میرے سارے کام کمزور ہوجائیں گے میزبان کے کہنے پرکہ نہ تصدیق نہ تردید کرینگے اس پر صدر عارف علوی نے کہا کہ اس میں کوئی گفتگو میں کرنا نہیں چاہتا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا ۔صدر عارف علوی نے کہاکہ کچھ بحران ایسے ہوتے ہیں جو National Calamity اورDisaster کہلائیں مثال کے طور پر سیلاب ہے مثال کے طو رپر کچھ بحران نیچرل نہیں ہیں اور اس کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ہے اس کی مثال کوویڈ ہے جو دنیا بھر میں آیا جس سے ایک کیفیت بھی پیدا ہو جو نیچرل تھی اور پھر یہ کہ کوویڈ کے دوران جس انداز سے ویکسین کی تقسیم ہوئی اس سے امیر ممالک نے اس کو زیادہ اور غریب ممالک نے کم استعمال کیا تو دنیا کے اندر ایک فرق نظر آیا ہے جو بڑافرق ہے اور ویسے بھی دنیا میں ایک فرق ہے انسانوں کو پرکھنے کے اعتبار سے ۔ہم دنیا کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے خواہ وہ سیلاب کا بحران ہو یا دیگر اور کوئی بحران ۔ مگر سیاسی بحران کے اوپر مجھے زیادہ Disappointment ہوتا ہے کہ یہ تو خود پیدا کردہ ہے۔ قوم کے اندر ایک کنفیوژن ہے وہ کنفیوژن ختم ہو تو قوم یکجہتی کے ساتھ کسی بحران کا مقابلہ بھی کرسکتی ہے لہٰذا مجھے Disappointment یہ جو خود پیدا کردہ بحران ہے اس پر زیادہ ہے ۔ اگر میں مرجاؤں تویہ کوئی بحران نہیں یہ تو قدرت کی طرف سے ہے تاہم اگر کوئی خودکشی کرے تو یہ اس کا اپنا پیدا کردہ بحران ہے لہٰذا میری نظر میں جو سیاسی بحران ہے وہ خود پیدا کردہ ہے اب جب یہ خود پیداکردہ ہے تو مطلب ذمہ داری ہمارے اوپر ہے یعنی ہم سب پرہے ۔ میرا کام آئین کے تحت فیڈریشن کو یکجا رکھنے کی کوشش کرنا اور صوبوں کو بھی یکجا رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔پاکستان کے کرائسز کے اندر پچھلی حکومت بھی کہتی تھی اور یہ حکومت بھی کہتی ہے کہ حکومت اور ملٹری ایک صفحے پر ہیں یعنی Civil and Military Relationship Are Single page تو اس کا بھی مجھے ادراک ہے کہ یہ بھی ایک صفحے پر ہوں ،کیوں ضروری ہے ان کا ایک صفحے پر ہونا کیونکہ بیرونی کیفیات کے اعتبار سے دیکھیں افغانستان کے معاملات ،دہشت گردی کے معاملات ،ہماری افواج نے ہینڈل کیا ، ہماری افواج ہمارے ساتھ قدم بہ قدم ہمارے ساتھ چلتی ہے اگر سیلاب ہے یا اور کوئی قدرتی آفت تو سب سے زیادہ ذمہ دار آرگنائزیشن یہی ہے ،جانیں بچانے کے لئے یہی تو ہیں جو ایک کال پر نکلتے ہیں اور اپنی جانیں دیتے ہیں ،دہشت گردی کا مقابلہ بھی یہی کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی ہے جس کی بھی ذمہ داری ہے ایسا نہیں ہے کہ میڈیا صرف انٹرویو کرے اور لڑائی کو بڑھادے لہٰذا میڈیا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔صدرعارف علوی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے کال کرنے سے کیا ہوتا ہے ، سپریم کورٹ Interpret اس چیز کو تھوڑی کررہی تھی وہ تو نیشنل اسمبلی کی معاملات کو Interpret کرکے فیصلہ دے رہی تھی اور اسی کے اندر انہوں نے بلا کر پوچھا کہ کب ہوسکتے ہیں تو اس کا مطلب سب لوگ بشمول پی ڈی ایم او ردیگر جماعتیں الیکشن چاہتے ہیں ،پی ٹی آئی نے بھی الیکشن کے لئے کہا اور ابھی بھی وہ کہہ رہے ہیں اور سپریم کورٹ نے بھی یہی بات کی تو میں سمجھتا ہوں کہ وقت کم رہ گیا اپنے شیڈول فل ٹائم میں او رڈیمانڈ میں چند ماہ کا فرق ہوگا سال کا بھی فرق نہیں رہا تو اگر اس پر تمام لوگوں کے مذاکرات ہوکر کسی چیز ، کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو کیا یہ کوئی بہت بڑی چیز ہے جو میں سیاستدانوں سے مانگ رہا ہوں ، یہ قوم مانگ رہی ہے کہ کسی ٹائم فریم پر تو متفق ہوں چلیں جو موجودہ صورتحال ہے سیلاب کی اس کی وجہ سے ایک دو ماہ کی تاخیر تو اس پر غور ہونا چاہئے ،میں اس پر بحث نہیں کروں گا ویسے بھی چند ایک مہینوں کا تو فرق ہے ، یہاں تو خدانخواستہ بعض کرائسز میں تو لوگوں نے تو آئین کو بھی لپیٹ دیا ہے اور اس سے کتنا نقصان ملک کا ہوا ہے یہ ہم سب اور میڈیا بخوبی جانتا ہے ۔ کوششیں جاری رہیں گی اور میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ کامیاب ہوگی یہ ملک ڈیزرو کرتا ہے کہ امن کی طرف جائے یہ ملک ڈیزرو کرتا ہے اتنا بڑا فنائنشنل کرائسس ہے کوئی انکار نہیں کرتا یہ علیحدہ بات ہے کہ Blame گیم چلتا رہتا ہے کہ کس کی وجہ سے ہوا اور کیوں ہوا مگر عدم استحکام تو معیشت کے لئے زہر ہے ، معیشت کی پالیسی کا تسلسل بہتر ہو تو معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں اسی اعتبار سے مشرف صاحب کے دور میں معیشت بہتر تھی بہ نسبت 90ء کے دہائی کے اعتبار سے تھوڑا زیادہ استحکام آیا یہ دوسری بات ہے کہ اس کے اندر بیرونی امداد کا حصہ بھی ہوگا یہ سب کچھ ہوگا ۔ آپ دیکھیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا کہا اس نے کہا یہ دہشت گردی کا قانون آپ لوگوں پر لگارہے ہیں تصور کریں جو چیز ہاتھ میں آجائے اگر ہاتھ میں بندوق آجائے فائر کردیں گے ، توپ کا گولہ آجائے توپ کا گولہ فائر کردیں گے یہ کوئی طریقہ ہے کہ سیاستدانوں پر دہشت گردی کا الزام لگایاجائے مجھے تو خود تعجب ہوتا ہے اصل دہشت گردی کو چھوڑ کر جو قانون مل جائے استعمال کرنے کو اس کو استعمال کرو تو یہ مناسب نہیں ۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ درست ہے،میرے خیال میں میچوریٹی کا فقدان ہے ، پاکستان کے اندر ایک ایشو رہا جس کے بیک گراؤنڈ میں نہیں جانا چاہئے وہ یہ رہا کہ کرپشن رہا اور سب کہتے ہیں کہ کرپشن رہا کوئی ایک آدمی پاکستان میں نہیں ملے گاجو یہ کہے کہ کرپشن نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ کرپشن رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کی کمزوری ہے بطور ملک کہ وہ اپنے یہاں ہونے والی کرپشن کو روک نہیں پاتا ہے باہر سے لوگ آئیں گے ایف اے ٹی ایف (فیٹف) والے وہ صرف دہشت گردی کی حوالے سے دیکھیں گے وہ اس کو نہیں دیکھ رہے کہ ہمارے یہاں کرپشن ہے کرپشن کی تو فکر ہمیں خود ہونا چاہئے ، تین چیزیں پاکستان کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں ایک کرپشن او ریہ قائداعظم کی 11اگست کی تقریر سے ہی آپ لے لیجئے ساری چیزیں انہوں نے اقرباء پروری کا کہا تو جو قائداعظم کہہ کر گئے مسائل ان کو ہم 75 سال میں حل ہی نہیں کرپائے ہیں ۔ عارف علوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آواز ضرور اٹھانا چاہئے کیونکہ یہ دنیا کی ذمہ داری ہے صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے اگر کوئی ڈیزاسٹر مثال کے طور پر اٹامک ریکٹر کا ڈیزاسٹر ہوا تھا تو اس کا سارے اثرات جرمنی اور اس کے علاقوں میں پڑے تھے تو ساری دنیا نے اس بات کی فکر کی کہ ایک جگہ کا ڈیزاسٹر دوسری طرف کیسے جاتا ہے ۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ میں کوئی قیاس آرائی نہیں کروں گا میں صرف لوگوں کو اس بات پر بیٹھا سکتا ہوں اکسا سکتا ہوں کہ کرلو الیکشن کہ مینڈیٹ واضح ہوجائے اور اس میں اتنا بڑا فرق نہیں ہے آئینی طور پر چند مہینوں کا ہی فرق رہ گیا ہے اس کے اندر اتنی ایکسٹریم پوزیشن کوئی بھی اختیار نہ کرے گفت و شنید کریں اور ان سب سے باہر نکلیں۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ مجھے افسوس ہوتا ہے مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو وفاداریاں بدلتے ہیں۔ اس سوال پر کہ آپ نے کہا خبروں میں اکثر فیک نیوز ہوتی ہے ، آپ صدر ہاؤس میں موجود ہیں وہاں یہ کہا گیا کہ وہاں آپ نے ایک میٹنگ کروائی ہے بڑی اہم ، اور آپ کے اسحاق خاکوانی نے آن ایئر بات کہہ دی صدر عارف علوی نے کہا کہ یہ خاکوانی صاحب سے پوچھیں کہاں سے انفارمیشن آئی ہے ۔ میں اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ میں نے تو اس پر کوئی بات ہی نہیں کی آپ سے کہ میں کیا کوششیں کر رہا ہوں اگر ایک بات کروں گا یا ایک بات سے انکار کروں گا ایک بات کی حامی بھروں گا تو پھر وہ میرے سارے کام کمزور ہوجائیں گے میزبان کے کہنے پرکہ نہ تصدیق نہ تردید کرینگے اس پر صدر عارف علوی نے کہا کہ اس میں کوئی گفتگو میں کرنا نہیں چاہتا ۔صدر عارف علوی نے کہا کہ اگر میں ایکٹو پالیٹکس میں ہوتا تو مجھے سڑک پر چیزیں نظر آرہی ہوتیں سیاسی جماعت لوگوں کے ساتھ چلتی ہے لوگوں کی رائے بناتی بھی ہے اور لوگوں کی رائے کو ٹول کے طورپر بھی استعمال کرتی ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کا ہے۔ میرا خیال ہے بطور صدر پاکستان میرے منہ میں خاک میں کہوں کہ پاکستان میں ڈیفالٹ کا خدشہ ہے مگر اگر خدشات نظر تو آتے ہیں اخباروں میں تو اس کو ہینڈل کرنا چاہیے بہتر معاشی پالیسی اور بہتر معاشی میں تسلسل اور قوموں کا اعتماد اور فریش مینڈیٹ بھی ضروری ہے سب ہی کہہ رہے تھے ہر سیاسی جماعت کہہ رہی تھی الیکشن کراؤ ، میرا خیال ہے آپ کی بات درست ہے اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر یہ فیصلے کر لینی چاہئیں جو چیزیں کرائسز میں آتی ہیں اس کا حل کیا ہے ، دو ہی حل رہیں گے میرٹ اور سینیارٹی۔اس کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے کچھ لوگ میرٹ کو وزن دیتے ہیں کچھ سینیارٹی کو اس پر بات ہونی چاہیے میں زندگی بھر لوگوں کے امتحان لیتا رہا ہوں ہائسٹ لیول پر پی ایچ ڈی ، ایف سی پی ایس والے امتحان لے کر یہی ساری چیزیں دیکھنا ہوتی ہیں اس میں viva بھی ہوتا ہے سب ہوتا ہے اس میں بھی دیکھتا ہوں کہ یہ آدمی اتنا سنیئر ہوگیا ہے محنت کرتے کرتے اس کو پاس کیا جائے نہیں کیا جائے۔