JUI کی بلوچستان حکومت میں شمولیت پر بی اے پی میں اختلاف

22 ستمبر ، 2022

کوئٹہ( امین اللہ فطرت )بلوچستان حکومت میں جمعیت کی ممکنہ شمولیت پر بلوچستان عوامی پارٹی میں بیک وقت اطمینان اور پریشانی کااظہارکیا جا رہا ہے ، بی اے پی کے بعض وزراءجمعیت کی شمولیت سے ناخوش ہیں ، جے یوآئی نے حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کی وزیراعلیٰ کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے پی اینڈ ڈی ، تعلیم ، صحت ، آبپاشی ، بی اینڈ آر کے قلمدان ،مختلف اداروں کی سربراہی مانگ لی ،جے یوآئی کے مائنس پی ٹی آئی فارمولے پر بھی عبدالقدوس بزنجوکو کوئی اعتراض نہیں تاہم انہوں نے جمعہ تک حتمی جواب دینے کی مہلت مانگی ہے ۔ یہ بات جے یوآئی کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے جنگ کو بتائی ۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر حالیہ چند دنوں کے دوران پھر سے غیر معمولی ہلچل اور روابط کا سلسلہ جاری ہے، اس بار بھی ہلچل کی وجہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں ذرا ئع کے مطابق بی اے پی کے سیکرٹر ی جنرل کے بیان کے بعد وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے ممکنہ خطرے کو بھانپتے ہوئے جے یوآئی کو شریک اقتدار بنانے کا فیصلہ کیا انہوں نے دو دن قبل اسلام آباد میں جمعیت علما ءاسلام کے صوبائی امیر وفاقی وزیر ہاؤسنگ مولانا عبدالواسع سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کرکے انہیں باضابطہ طو رپر شریک اقتدار ہونے کی دعوت دی ۔بی اے پی کے ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں جمعیت علماءاسلام کے ان اراکین اسمبلی کی خواہش اور کوششیں بھی شامل تھیں جو صوبائی حکومت میں جمعیت کی شراکت کے متمنی ہیں اور جو وزیراعلیٰ بزنجو کے قریبی سمجھے جاتے ہیں جمعیت کے مذکورہ ارکان اسمبلی نے بی اے پی کے عبدالقدوس بزنجو گروپ کو قائل کیا کہ اگر جام کمال گروپ کی حکومت مخالف کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا ہے تو اس کے لئے جمعیت کی حکومت میں شراکت ضروری ہے، مذکورہ اراکین کی بات مانتے ہوئے میر عبدالقدس بزنجو نے جے یوآئی کو باضابطہ طو رپر شریک اقتدار کرنے کی دعوت تو دے دی ہے جس پر جے یوآئی نے مشروط آمادگی بھی ظاہر کردی ہے تاہم جے یوآئی کی حکومت میں ممکنہ شمولیت سے بلوچستان عوامی پارٹی میں پھر سے واضح دھڑے بندی سامنے آئی ہے بی اے پی کے ایک رکن اسمبلی نے جنگ کو بتایا کہ جے یوآئی کے آنے سے ہمارے اراکین کابینہ سے فارغ ہوں گے اور نہ صرف بلوچستان اسمبلی میں واضح اکثریت کے باوجود ہم اقلیت میں بدل جائیں گے بلکہ وزیراعلیٰ مزید یرغمال بن جائیں گے اس لئے ہم کسی صورت جے یوآئی کے شراکت اقتدار کے قائل نہیں ۔ دوسری جانب جمعیت علماءاسلام کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد میں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بز نجو کی قیادت میں بی اے پی کے وفد کا جمعیت کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے پرتپاک استقبال کیا اور وزیراعلیٰ کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن جے یوآئی نے بزنجو فارمولے کی بجائے مولانا عبدالواسع کے شراکت اقتدار کے فارمولے پر زور دیااور کہا کہ جے یوآئی کمزور پوزیشن میں بی اے پی کی اتحادی نہیں بنے گی، مذکورہ ذرائع کے مطابق جے یوآئی نے وزیراعلیٰ سے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات ، تعلیم ، صحت ، ایریگیشن اور بی اینڈ آر کے قلمدان مانگے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بعض سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سربراہان کی بھی ڈیمانڈ کی ہے علاوہ ازیں جے یوآئی نے پی ٹی آئی کو حکومت سے نکالنے کا بھی مطالبہ وزیراعلیٰ کے سامنے رکھا جس کے بعد وزیراعلیٰ نے ان مطالبات پر ساتھیوں سے مشاورت کرنے کا وقت مانگا اور بتایا کہ وہ جمعہ تک جے یوآئی کو آگاہ کردیں گے کہ ان کی شرائط پر عمل ممکن ہے یا نہیں ۔ جنگ نے جب اس سلسلے میں جے یوآئی کے ایک اعلی عہدیدار سے رابطہ کیا تو انہوں نے وزیراعلیٰ کی جانب سے شریک اقتدار ہونے کی پیشکش کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جمعیت کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے اپنا فارمولہ یا چارٹر آف ڈیمانڈ وزیراعلیٰ کو دے دیا ہے جس پر انہوں نے مشاورت کے لئے وقت مانگا ہے جمعیت کے ذرائع نے مزید بتایاکہ ابھی تک وزراء کی حلف برداری کی کوئی دن یا تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ پہلے وزیر اعلیٰ ہماری ڈیمانڈ یا فارمولے کا جواب دیں گے جس کے بعد جمعیت یہ مشورہ اور فیصلہ کرے گی کہ کن کن اراکین کو وزارتیں دی جائیںگی ۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جنہیں پاکستان تحریک انصاف ، بی این پی (عوامی ) پی این پی ، ا ے این پی ، ایچ ڈی پی اور جے ڈبلیو پی کی حمایت حاصل ہے وزیراعلیٰ کو جے یوآئی کے مائنس پی ٹی آئی فارمولے پر کوئی اعتراض نہیں البتہ بی اے پی ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کو میر نصیب اللہ مری ( جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے) کو کابینہ سے فارغ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوگا کیونکہ نصیب اللہ مری نے پارٹی قیادت کے فیصلے کے خلاف جا کر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بننے میں مدد فراہم کی تھی۔