ایف آئی اے سائبر کرائم کے حقیقی افسران دل برداشتہ، ڈی جی کا جواب دینے سے گریز

22 ستمبر ، 2022

کراچی (اسد ابن حسن) ملک بھر میں ایف آئی اے سائبر کرائم میں اصل حقیقی بھرتی شدہ افسران میں ہیڈکوارٹر کی پالیسییوں پر سخت تحفظات ہیں اور افسران نے کام میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا ہے۔اس حوالے سے ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ کو سوالات بھیجے گئے مگر انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا ۔ سائبر کرائم کے کئی اعلی افسران سے بات ہوئی اور سب ہی دل برداشتہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے کلیدی عہدوں پر سائبر کرائم کے حقیقی اور اصل افسران کو یا تو بالکل تعینات نہیں کیا جاتا اور اگر مجبوری میں تعینات کر بھی دیا جائے تو وہ تعیناتی ایک دو ماہ کی ہوتی ہے اور مذکورہ پوسٹ پر پولیس کا پی ایس پی افسر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ این آر تھری سی (نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم) 2006میں تشکیل دیا گیا اور فیز I میں بھرتیاں مطلوبہ قابلیت کی بنیادوں اور تجربے پر ہوئیں۔ اس فیز کے بھرتی شدہ ملازمین کو کچھ عرصے بعد مستقل بھی کر دیا گیا۔ کچھ اہم عہدوں پر قائم مقام نابلد ایف آئی اے افسران کو تعینات کیا گیا ہے جیسا کہ سائبر کرائم کراچی کا چارج گریڈ 17کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو قائم مقام لگا دیا گیا ہے جبکہ مذکورہ افسر کے خلاف کرمنل انکوائری کافی عرصے سے زیر التوا ہے۔ یہی صورت حال سکھر، ملتان اور چند دیگر سائبر سرکلز کی ہے۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی زونز کے سربراہ بھی پی ایس پی افسران ہی ہیں جن کے پاس پیکا آرڈیننس کے مطابق تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہیں ہے۔ قانون کے مطابق گریڈ 18سے گریڈ 20تک ان افسران کی تعیناتی کی جانی چاہئے جو کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی، بی سی ایس، بی ایس (کمپیوٹر سائنس)، ایم سی ایس، بی آئی ٹی، ایم آئی ٹی، بی ای کمپیوٹر انجینئرنگ یا ایل ایل بی ہوں۔ تعیناتی کے لئے افسر کا چار برس انویسٹی گیشن، فارنسک، نیٹ ورک سیکورٹی اور ریسرچ کے کام میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ مگر اب تعیناتی میں ان شرائط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا۔ یہاں یہ بات سب سے اہم ہے کہ سائبر کرائم ونگ وزارت آئ ٹی کی ڈومین اور ماتحتی میں آتا ہے جبکہ اس کو وزارت داخلہ اور ایف آئی اے قوانین کے تحت چلایا جا رہا ہے اور خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔