عمران ہوتے کون ہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی ہدایت دینے والے، فضل الرحمٰن

03 اکتوبر ، 2022

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے، عمران ہوتے کون ہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی ہدایت دینے والے، عدم اعتماد اور اسمبلی کے اندر تبدیلی لانے سے اختلاف رکھتے تھے، حکومتیں نمائشوں سے نہیں کمٹمنٹ سے چلتی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سازش نہیں ہوئی ان کولانے کے لئے سازش ہوئی، انہیں یہودیوں اور بھارتیوں نے فنڈنگ کی، اس ماہ پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا، عمران خان نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا، آڈیو لیکس میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ خط کو استعمال کرنا ہے، پورے ملک میں لوگ عمران خان کی کارکردگی سے مایوس تھے، بائیڈن کا عمران خان سے نہ ملنا اس کا ردعمل تھا جس پر اس کی ناراضی فطری بات ہے۔ سلیم صافی: مولانا صاحب مجھے کھلا تضاد نظر آتا ہے، آپ ان اسمبلیوں کو جعلی کہتے تھے، اس اسمبلی اور سینیٹ کی کوئی ساکھ نہیں ہے، آپ لوگ اس جعلی اسمبلی کو دوام کیوں دینا چاہتے ہیں اور صاف و شفاف الیکشن سے کیوں ڈرتے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن:آپ نے بجا فرمایا کہ اصولی طور پر ہم نے 2018ء کے الیکشن کوتسلیم نہیں کیا، ان اسمبلیوں کو بھی ہم نے تسلیم نہیں کیا، لیکن چونکہ ملکی سیاست میں تنہا ہم نہیں لڑرہے تھے، ہم عدم اعتماد اور اسمبلیوں کے اندر تبدیلی لانے سے اصولی طور پر اختلاف رکھتے تھے اور اکثریت جو ہے جب دوسری جماعتیں بھی آکر مل گئیں تو پلڑا اس سائڈ کا بھاری ہوگیا ہے کہ اب ایوان کے اندرتبدیلی کے امکانات چونکہ زیادہ واضح ہیں تو بھی ہم نے عدم اعتماد میں پی ٹی آئی کے لوگوں کا ووٹ نہیں لیا اور جو پولیٹیکل فورسز تھیں اور ان کی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹیاں تھیں دوسری اتحادی، پہلے سے مینگل صاحب آگئے تھے وہ کافی عرصہ پہلے آگئے تھے، اس موقع پر بقیہ دو چار جماعتیں بھی ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور دوسرے آئے، یہ جب ماحول بن گیا، ایک طرف پورے ملک میں عمران خان کی کارکردگی سے جو لوگ مایوس تھے اور اس کو ہر قیمت پر جلد از جلد اتارنے کی توقع اور تمنا رکھ رہے تھے تو وہ جو معروضی کیفیت اور ضرورت تھی وہ غالب آگئی، پھر ظاہر ہے اس وقت اتحاد کو توڑنا، ان سے الگ ہونا وہ شاید اس عنصر کو زیادہ تقویت دیتا جس سے قوم نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ سلیم صافی: جس عنصر سے قوم نجات چاہتی تھی وہ عنصر یعنی پی ٹی آئی تو پاپولر ہوگئی، نہ آپ لوگوں سے عمران خان قابو ہورہے ہیں، نہ ڈالر قابو ہورہاہے، نہ حکومت آپ چلاسکتے ہیں، جب چلانہیں سکتے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ مولانا فضل الرحمن: یہ بھی میری دلیل تھی کہ اگر ہم نے مہنگائی مارچ کئے ہیں، ہم نے جلسے کئے، ہم نے مہنگائی کے ایشو کو اٹھایا تو ہمارا ایک جچی تلی رائے تھی کہ ریاست کمزور ہورہی ہے اور ریاست جب کمزور ہوگئی ہے تو حکومت ہم بھی حاصل کرلیں تو کمزور ریاست ہمارے ہاتھ میں آئے گی، نتیجہ یہ ہوگا کہ نقصانات کی تلافی میں وقت لگے گا، مہنگائی کو ختم کرنا، لوگوں کو ریلیف دینے میں کافی وقت لگے گا، عام آدمی ان باریکیوں کو نہیں سوچتا وہ اپنی مشکلات کو دیکھتا ہے، ایک غریب آدمی اپنی بھوک کو دیکھتا ہے، اس پر میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر ان حالات میں آپ حکومت لیں گے تو پھر ایک کمٹمنٹ یہ کرلیں گے کہ صرف انتخابی اصلاحات کا قانون پاس کرکے اور نیب وغیرہ کے حوالے سے اصلاحات کرکے آپ الیکشن کا اعلان کردیں لیکن یہ ہوا کہ اس نے جو ڈرامے کھیلے اور جن ڈراموں کی بنیاد پر اس نے جعلی قسم کے خط بھی ہلا کر اور ایسا ماحول پیدا کردیا کہ جس ماحول کے بعد ان تمام اتحادیوں نے اس بات پر سوچا کہ ٹھیک ہے وقتی طور پر ہمیں سیاسی نقصان بھی ہوگا، وقتی طور پر وہ کچھ اوپر بھی جائے گا جس کا ہم پہلے بھی خدشہ کررے تھے اور وہی ہوگا وہی ہورہا ہے لیکن جب ہم نے ملکی حالات کو ہاتھ ڈال لیا اور پھر اس کے بعد ہم بڑے گہرائی میں اس صورتحال کی طرف ڈالیں تو ضرورت اس امر کی تھی اور اس پر اتفاق ہوگیا کہ ہمیں وقت پورا کرنا چاہئے تاکہ ہم تلافی کی طرف جاسکیں، اس وقت صورتحال کنٹرول نہیں ہوپارہی لیکن اس کی بنیادیں فراہم کرلی گئی ہیں، اس کیلئے مجھے اطمینان ہے جس طرح جلسے میں میاں شہباز شریف کہا کرتے تھے کہ مجھے چھ مہینے چاہئے ہوں گے، ساڑھے تین سال جس نے ملک کو غرق کیا ہے اور آپ بتائیں کہ تین مہینوں کے اندر صورتحال کو اسی کیفیت میں لانا، وہ جو معاہدات بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ملک کو گروی رکھا گیا آئی ایم ایف کے ہاتھ میں اور پھر ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر قانون سازیاں ہوئیں، پھر آپ نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا تو جو ملکی معیشت کی چابیاں ہوتی ہیں اور جو ادارے ملکی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں وہ آپ کے اس حد تک کمزور ہوگئے۔ سلیم صافی: وہ کہتے ہیں میں امریکا سے آزادی چاہتا تھا اور روس کی طرف گیا تھا، آپ لوگ امریکا کے مہرے بن کر ان کیخلاف سازش میں استعمال ہوئے؟ مولانا فضل الرحمن: اس پر سارے حقائق سامنے آرہے ہیں، وہ سائفر جو عام طور پر دنیا میں ایک سفیر اپنے ملاقاتوں کے جو تاثرات ہوتے ہیں اس کو کسی طرح وہ آجاتی ہیں اور وہ ایک سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہوتا ہے، یہاں تک کہ سیکرٹری خارجہ کے پاس باہر سے کوئی ڈاکیومنٹ آتے ہیں تو وہ اس کا بھی پابند نہیں ہے کہ وہ ڈاکیومنٹ وزیرخارجہ کو دکھائے لیکن انہوں نے ایک ایسا طریقہ کرکے اس کے منٹس تیار کئے جائیں اور منٹس کو استعمال کیا جائے، اب تو امریکا نے بھی اس کی تردید کردی، پاکستان کے اداروں نے بھی تردید کردی، ان کے اس حوالے سے بیباکانہ بیانات پر سپریم کورٹ نے بھی ان کی بعض باتوں کو آئین شکنی قرار دیا، اب جو آڈیو لیک سامنے آرہی ہیں جس میں وہ خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اس خط کو استعمال کرنا ہے اور خبردار امریکا کا نام نہیں لینا تو امریکا کا نام نہیں لینا اور امریکا کا خیال بھی رکھنا ہے اور امریکا سے آئے ہوئے خط کو استعمال بھی کرنا ہے، ان تضادات کو اکٹھا کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی اور حقائق روز بروز سامنے آرہے ہیں اورآپ خود اس کا مشاہدہ کررہے ہیں، مجھ سے زیادہ آپ نے اس کا مطالعہ کیا ہوگا کہ یہ صورتحال کس قدر بھونڈی اور کس قدر اس کے اندر ایک خلا ہے، اس کا کچھ بھی وجود نہیں ہے تو آج وہ کھل کر ایکسپوژ ہورہا ہے کہ ڈرامے کیوں کرتے ہو، ڈرامے کو ایکسپوز کرنے کیلئے بھی ضرورت تھی۔ سلیم صافی: آپ تو عرصہ دراز سے ان پر غیرملکی ایجنٹ کا الزام لگاتے رہے اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، وہ روس چلا گیا؟ مولانا فضل الرحمن: روس چلا گیا، وہاں پر جو انہوں نے قدم مبارک رکھے اور یوکرین کا مسئلہ اسی دن پیدا ہوا تو اس کے جانے کا یہ نتیجہ تھا، وہ روس گیا کیوں؟، اس کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے جس ملک میں جارہا ہے اس ملک کی اس وقت کی جو اسٹریٹجک پوزیشن ہے اسے معلوم کرے، اس کو یہ پتا نہیں ہے کہ وہاں کی اکنامک پوزیشن کیا ہے، اسے یہ پتا نہیں ہے کہ اس ملک کی پولیٹیکل پوزیشن کیا ہے اور وہاں کیا حاصل کریں گے، اگر وہ روس چلا گیا تو کیا یہ بمقابلہ امریکا تھا؟، کیا ہمارا وزیراعظم روس جائے گا یا اقوام متحدہ میں ہمارے وزیراعظم نے ان سے ملاقاتیں کی ہیں، کیا امریکا کے مقابلہ میں ہوتی ہیں یا امریکا سے ہم ملیں گے تو چین کے مقابلہ پر ملیں گے؟ پاکستانی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چیزیں ہوتی ہیں، اسے یہ بھی پتا نہیں کہ جس ملک میں جارہا ہوں اس میں پاکستانی مفادات کو غرق کررہا ہوں یا پاکستانی مفادات حاصل کررہا ہوں۔ سلیم صافی: اس وقت سب سیاسی جماعتیں ایک طرف عمران خان دوسری طرف ہیں، وہ اپنے جھوٹ کو قوم کو بیچ سکا کیا یہ آپ لوگوں کی سیاسی ناکامی نہیں ہے؟ مولانا فضل الرحمن: حکومت سے لوگوں کی توقعات ہوتی ہیں کہ وہ