کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے، عمران ہوتے کون ہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی ہدایت دینے والے، عدم اعتماد اور اسمبلی کے اندر تبدیلی لانے سے اختلاف رکھتے تھے، حکومتیں نمائشوں سے نہیں کمٹمنٹ سے چلتی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سازش نہیں ہوئی ان کولانے کے لئے سازش ہوئی، انہیں یہودیوں اور بھارتیوں نے فنڈنگ کی، اس ماہ پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا، عمران خان نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا، آڈیو لیکس میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ خط کو استعمال کرنا ہے، پورے ملک میں لوگ عمران خان کی کارکردگی سے مایوس تھے، بائیڈن کا عمران خان سے نہ ملنا اس کا ردعمل تھا جس پر اس کی ناراضی فطری بات ہے ، سارے حقائق سامنے آرہے ہیں، ، اب جو آڈیو لیک سامنے آرہی ہیں جس میں وہ خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اس خط کو استعمال کرنا ہے اور خبردار امریکا کا نام نہیں لینا تو امریکا کا نام نہیں لینا اور امریکا کا خیال بھی رکھنا ہے اور امریکا سے آئے ہوئے خط کو استعمال بھی کرنا ہے، ان تضادات کو اکٹھا کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی اور حقائق روز بروز سامنے آرہے ہیں اورآپ خود اس کا مشاہدہ کررہے ہیں، عمران خان کو جن قوتوں نے یہاں پہنچایا ہے اور ان کے جو ایجنڈے ہیں ان کو ہم نے ناکام بنایا ہے ،عمران کی ساری چیزیں نمائش تھی، بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا لفظ بھی بول لیتا ہے، نمائشوں سے حکومتیں نہیں چلتیں کمٹمنٹ سے چلتی ہیں، آپ کارڈ استعمال کریں گے یا کاز استعمال کریں گے، اسلام ہو، ریاست مدینہ ہو، اینٹی امپریلزم ہو اس پر ہمارا کاز ہے اور آپ نہیں سمجھتے کہ یہ آدمی چیزوں کو بطور کارڈ استعمال کررہا ہے، کارڈ دو دن چلتا ہے تیسرے دن ختم ہوجاتا ہے۔ سلیم صافی: آپ عمران خان کے غیرملکی ایجنٹ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں سامنے لاسکے؟ مولانا فضل الرحمن: میرے خیال میں سیاسی دنیا میں پبلک کو آگاہ کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بہت سی چیزیں سامنے آگئی ہیں، آج بچے بچے کی زبان پر یہی لفظ ہے کہ یہ بیرونی ایجنٹ ہے، بیرونی ایجنڈے پر پاکستان بھیجا گیا، پہلے اس ملک میں پانامہ کے ذریعہ سیاسی عدم استحکام لایا گیا پھر عمران خان کے ذریعہ اقتصادی عدم استحکام لایا گیا، سی پیک کتنا بڑا منصوبہ ہے اتنے بڑے منصوبے اور چین جیسے دوست پاکستان کی سرمایہ کاری اور امریکا کی خارجہ پالیسی کی یہ بنیاد ٹھہرا کہ اگر کوئی سی پیک کا حامی ہے تو امریکا دشمن ہے، اس نے سی پیک کو فریز کیا، میگا پراجیکٹس کو فریز کیا۔ سلیم صافی: آپ سمجھتے ہیں سی پیک میں رکاوٹ ڈال کر انہوں نے امریکا کی خدمت کی؟ مولانا فضل الرحمن: ظاہر ہے جی، امریکا کی خارجہ پالیسی کا مدار یہی ہے، ہمیں ملکی مفاد کو دیکھنا ہے، ہم امریکا سے بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے مفادات کے دشمن نہیں لیکن اگر آپ پاکستان کے مفاد پر کلہاڑا ماریں گے تو پھر ہمیں اپنے مفاد کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ سلیم صافی: لیکن جوبائیڈن انہیں فون بھی نہیں کرتے اور شہباز شریف سے ملاقات بھی کی؟ مولانا فضل الرحمن: وہ سیاسی معاملات ہیں، اس میں زیادہ تر امریکا کے اندرونی معاملات بھی ہیں کہ اس نے وہاں جاکر ٹرمپ کو سپورٹ کیا، جوبائیڈن کیخلاف اسے سپورٹ کیا، ٹرمپ کا جو داماد تھا جیرڈ کشنر اس کے ساتھ باقاعدہ یاری لگوائی تھی زلفی بخاری نے، پھر اس حد تک قریب ہوگئے کہ میں کسی طرح ٹرمپ کے ذریعہ وائٹ ہاؤس میں پہنچ جاؤں، یہ سارے ڈرامے بش کے زمانے میں بھی کھیلتا رہا ہے کہ میں وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرسکوں، اس ساری صورتحال میں جوبائیڈن کا ردعمل تھا جو امریکا کی سیاست میں مداخلت کے حوالے سے اور اس پر ظاہر ہے ان کی ناراضی فطری بات ہے جو ابھی چل رہی ہے، اس کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے اس کے اس کردار سے ہے، ایک دفعہ ایک کو لے آیا اپنے اقتصادی مشیر بنانے کیلئے، پبلک نے ہنگامہ کیا، آج پھر وہ لاس اینجلس میں ایک کونسلر کے انتخاب کی سپورٹ میں انٹرویو دے رہا، کیا کام ہے آپ کا دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرنے کا، جاتا ہے اپنے سالے کی الیکشن کمپین کیلئے برطانیہ ایک پاکستانی نژاد مسلمان کے خلاف۔ یہ ساری چیزیں کیا دلیل نہیں ہیں؟، جس زیک کے الیکشن میں یہ گیا ہے اس کا جس تنظیم سے تعلق ہے آپ آج بھی دیکھیں اس کا لوگو کیا ہے، کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل، اس تنظیم کے اسٹیج پر جاکر باقاعدہ اس کیلئے کنوینسنگ کرتا ہے، آپ مجھ سے ثبوت مانگتے ہیں اور کیا ثبوت دوں۔سلیم صافی: اب وہ کہتے ہیں کہ اس ادارے کو تنازع سے بچانے کیلئے اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف کا تعین ہونا چاہئے، وہ کہتے ہیں جنرل باجوہ کو ایک مخصوص مدت کیلئے ایکسٹینشن دیا جائے، اس کے بعد فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں اور نئی حکومت اس کا انتخاب کرے، آپ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن کے حق میں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: عمران خان وزیراعظم تھا جعلی تھا یا جو کچھ بھی تھا اس نے کس سے پوچھا؟، اس نے اپنی کابینہ سے پوچھا؟، اپنی پارلیمنٹ سے پوچھا؟، کسی ایک سے مشورہ کیا، تب ہی تو اس نے نوٹیفکیشن کا ڈرافٹ غلط تیار کیا، تب ہی تو معاملہ الجھ گیا تھا دو چار روز تک اسے ٹھیک کرتے کرتے، یہاں تک کہ عدالت نے کہا کہ قانون بناؤ اور پھر قانون سازی کی طرف معاملہ چلا گیا، یہ ساری چیزیں اس نے اپنی ذاتی رائے اور فیصلے کی بنیاد پر کیں، وہ اپنی کابینہ کو بھی اعتماد میں لینے کیلئے تیار نہیں تھا، آج نئی حکومت آگئی، وہ ہوتا کون ہے ہمیں ڈائریکشن دینے والا؟، اس کا کیا حق بنتا ہے، اس کی کیا اوقات ہے کہ ہمیں کہے آپ یوں کریں، آپ یوں کریں، جو بھی فیصلہ ہوگا آئین کے مطابق میرٹ پر ہوگا، جو بھی فیصلہ ہوگا جس منصب کو اس کا اختیار حاصل ہے وہی فیصلہ کرے گا۔ سلیم صافی: آپ ایکسٹینشن کے حق میں نہیں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: میرا سرکاری ملازمین کی ایکسٹینشن، میں نے اس وقت بھی کہا تھا جو صرف ایکسٹینشن کی بات تھی، مجھ سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی ایکسٹینشن اور ریٹائرمنٹ کے معاملات چلتے رہتے ہیں ہم اس کو ایک پولیٹیکل ایشو نہیں بنانا چاہتے لیکن جب آپ نے ڈرافٹ غلط کردیا، ایشو بن گیا، پھر کورٹ میں چلا گیا ، پھر کورٹ نے آپ سے کہا قانون سازی کرو، مسئلہ آپ نے بنالیا تھا، میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ ہمیں اسے ایک پولیٹیکل ایشو نہیں بنانا چاہئے، اگر اس کی مدت پوری ہوگئی ہے تو یہ پرائم منسٹر کا اختیار ہے کہ اس کو جانے دیتے ہیں یا اس کا اختیار ہے کہ ضرورت ہے تو اس کو روکتے ہیں۔۔ سلیم صافی: اس حکومت کو شرم نہیں آتی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیدیا، عدالت نے فیصلہ دیدیا، لیکس آگئیں، لیکن اپنے کیسز تو یہ حکومت ختم کررہی ہے لیکن آج تک 2018ء میں یہ سب کام کرنے والے اور عمران خان کیخلاف یہ سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے، کیا یہ حکومت بزدل ہے یا نااہل ہے؟ مولانا فضل الرحمن: میری جماعت اس معاملہ میں میاں شہباز شریف سے بات بھی کرچکی ہے، ہم دباؤ بھی ڈال رہے ہیں کہ کس چیز کا انتظار ہے، کون سی مصلحت آڑے ہے، کیا یہ میاں نواز شریف سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ اس کی بیٹی سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ زرداری سے زیادہ محترم ہے، کیا وہ شہباز شریف سے زیادہ محترم ہے، ان کو سالہا سال جیلوں میں رکھا گیا، کال کوٹھری میں رکھا گیا، چور کہا گیا، انہیں ذلیل کیا گیا، جو بے حرمتی ان لوگوں کی ہوئی ہے وہ آج اتنا اہم بن گیا ہے کہ ہم اس پر ہاتھ تک نہیں ڈال سکتے، میں نے یہ بات رانا ثناء اللہ سے بھی کی ہے، وہ بھی کہہ رہے ہیں مجھے فوراً اجازت دیں۔ سلیم صافی: عدلیہ نے تو اپنی ماتحت جج کے وقار اور رٹ کو بحال کردیا، اس نے آپ کے آئی جی، ڈی آئی جی کو بھی دھمکیاں دی تھیں، اس حکومت نے کیا کیا؟ مولانا فضل الرحمن: میرا خیال ہے کہ عمران خان ایک کوشش کررہا ہے کہ میری چوریاں، آئین شکنیاں، بغاوتیں یہ تو ساری سامنے آگئی ہیں، کابینہ نے فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ ان کیخلاف باقاعدہ کچھ آڈیوز کے آنے کے بعد، میرا خیال ہے مزید اس کو ایکسپوز کرنا چاہتے ہیں، جو مجھے ان کی مصلحت نظر آرہی ہے، یہ کوشش کررہا ہے کہ میں یہ تاثر دوں کہ مجھے کسی پولیٹیکل ایشو پر گرفتار کیا گیا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے، اس کے جرائم اتنے ہیں، دیانت کے حوالے سے، امانت کے حوالے سے اور ریاست کے حوالے سے اس کے اتنے جرائم ہیں کہ اس پر ان کو ہاتھ ڈالنے کیلئے شاید مزید مواد کی ضرورت ہو اس کے علاوہ مجھے کوئی اور مصلحت سمجھ نہیں آرہی۔ سلیم صافی: اگر وہ لاکھوں لوگ جمع کرکے اسلام آباد پر حملہ آور ہوجائے تو آپ کیا کریں گے؟ مولانا فضل الرحمن: لاکھوں، یہ کیا لفظ ہے سمجھ نہیں آرہی، لاکھوں والے یہ لوگ غریب فقیر لوگ ہیں، لاکھوں والے یہ لوگ نہیں ہیں، یہ تتلیاں، یہ یوتھیے، ان کے تلوے اتنے نازک ہیں کہ وہ گرم زمین پر رکھنے کے نہیں ہوتے۔سلیم صافی: ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا نتیجہ امن کی بجائے بدامنی کی صورت کیوں نکلا؟ مولانا فضل الرحمن: یہی میرا سوال ہے، ہمیں یہاں پر کہا گیا کہ مذاکرات چاہئیں، ہم نے کہا جی مذاکرات چاہئیں، ہم سیاسی لوگ چاہیں مذاکرات کو کیسے خراب کرسکتے ہیں، مذاکرات کے نتیجے میں صلح چاہئے، ہمیں قبول ہے، صلح کے نتیجے میں امن چاہئے، اب یہ پتا ہمیں نہیں لگا کہ مذاکرات کس نے کئے؟، کب ہوئے؟، صلح ہوئی کب ہوئی؟، معاہدہ ہوا تو کب ہوا؟، اور اس کے بعد نتیجہ امن کی بجائے جس طرح آپ فرمارہے ہیں یہ کیا ہے؟ سلیم صافی: آپ حکومت میں ہو کر اتنے بے خبر ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: بے خبر نہیں ہیں بے اختیار ہیں، چیخ چلا کر ہم باتیں کررہے ہیں۔ سلیم صافی: صوبائی حکومت کررہی تھی، بیرسٹر سیف لیڈ کررہے تھے اور جنرل فیض صاحب کررہے تھے؟ مولانا فضل الرحمن: آپ مجھے بتائیں کہ جہاں پر اس قسم کے حساس معاملات اس لیول پر ڈیل کئے جارہے ہوں کہ جہاں نہ اہم شخصیات، نہ وہاں پر اسٹیک ہولڈرز اور کوئی آدمی اِدھر اُدھر کا وہاں پر ہے کیونکہ پشتو بولتا ہے۔ سلیم صافی: آپ بے اختیار ہیں تو حکومت میں کیوں بیٹھے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: حکومت میں ایک شق کیلئے آدمی نہیں بیٹھا ہوتا ہے، یہ تو ایک سوال ہے کہ آپ حکومت میں کیوں ہیں؟، یہ تو ہر بات میں ہوسکتا ہے کہ ایک کمزوری ہے میں آپ سے کہتا ہوں حل نہیں ہورہی، دوسری کمزوری، اور ہر ایک پر آپ کہیں حکومت میں کیوں ہیں؟۔ سلیم صافی: آپ کا پروپوزل کیا ہے؟ مولانا فضل الرحمن: میرا پروپوزل یہ ہے کہ وزیراعظم اس کو خود دیکھیں، اس کو کابینہ میں باقاعدہ زیربحث لائیں، اس کے ایجنڈے پر لائیں، سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلائیں، اس میں سنجیدہ معاملات پر بحث کی جائے، لوگوں کی رائے لی جائے، جو ہمارے صوبوں سے متعلق پارٹیاں ہیں، وہ اگر پارلیمنٹ میں نہیں بھی ہیں تو ان کی رائے تو ہے، اے این پی ہے جو بھی قوم پرست پارٹیاں ہیں مذہبی پارٹیاں ہیں، سب کو بلایا جائے، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر امن پر اتفاق ہے۔ سلیم صافی: لیکن بلوچستان، خیبرپختونخوا جیسے صوبوں کے گورنر نہیں ہیں، وہاں پی ٹی آئی والا ابھی تک بیٹھا ہوا ہے اللوں تللوں میں اور وزیراعظم کے دستخط سے ہوتا ہے، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟ مولانا فضل الرحمن: جتنا ٹائم اس کا مل رہا ہے یا مل گیا ہے اس نے ایک قدیم یونیورسٹی جو پشاور یونیورسٹی کے بعد بڑی صوبے کی یونیورسٹی ہے گومل یونیورسٹی اس کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، بالکل جیسے پی ٹی آئی اور اس کی حکومت نے نپے تلے انداز میں ایک یونیورسٹی کے ساتھ ظلم کیا ہے اور اس کو تباہ و برباد کیا ہے تو اس تاخیر میں تو یہ سارے نقصانات ہورہے ہیں۔ سلیم صافی: آپ اور اے این پی کے جھگڑے کی وجہ سے گورنر مقرر نہیں ہورہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن: نہیں، میری ملاقات کچھ عرصہ پہلے ایمل خان کے ساتھ ہوئی تھی، اس میں ہمارے درمیان کوئی اس میں الجھن نہیں ہے، کہاں الجھن ہے اس پر وہ بھی پریشان ہیں ہم بھی پریشان ہیں۔ سلیم صافی: آپ ان کو دینے پر تیار ہیں، میاں افتخار بہت اچھے آدمی ہیں؟ مولانا فضل الرحمن: میاں افتخار ہمارا برخوردار، بھائی، باعزت آدمی ہے، غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اچھے خاندان سے ان کا تعلق ہے لیکن یہ معاملات شخصیات کے نہیں پارٹی کے ہوتے ہیں۔ سلیم صافی: آپ کا اصرار ہے کہ جے یو آئی کا حق ہے؟ مولانا فضل الرحمن: ظاہر ہے۔ یہ ہمارا حق ہے کیونکہ وہاں مقابلے میں ہم ہیں، بلدیاتی الیکشن میں آپ دیکھیں جتنے ان کے پاس میئر ہیں اتنے ہمارے پاس میئر ہیں، برابر برابر کی پوزیشن ہے۔ سلیم صافی: اے این پی آپ کے ساتھ مان گئی ہے؟ مولانا فضل الرحمن: ان کے ہاں کوئی اس میں شدت نہیں ہے۔ سلیم صافی: بلوچستان میں کیا مسئلہ ہے؟ مولانا فضل الرحمن: مجھے اس بارے میں نہیں معلوم، جس کی ذمہ داری ہے اس کو پورا کرنے دیں، میں ہر بات کا جوابدہ تھوڑی ہوں۔ سلیم صافی: آپ ذرا فراخدلی دکھائیں، اختر مینگل کو دیدیں، کسی اور کو دیدیں؟ مولانا فضل الرحمن: وہاں پر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہماری کسی معاملہ پر کوئی ضد نہیں ہے لیکن کیوں تاخیر ہورہی ہے یہ میرے نزدیک بھی سوال ہے اور تاخیر سے نقصان ہورہا ہے، کراچی میں کیوں نہیں ہے؟، کے پی میں کیوں نہیں ہے؟، بلوچستان میں کیوں نہیں ہے؟، گلگت میں ہوگیا، کشمیر میں ابھی تک صورتحال جوں کی توں ہے، یہ ساری صورتحال ایسی ہے جیسا میں نے آپ سے کہا کہ یہ آفٹر شاکس ہیں، ابھی صوبوں میں صورتحال وہ نہیں ہے جس میں ہم کوئی حتمی بات کرسکیں۔ سلیم صافی: آپ نہیں سمجھتے کہ ایک طرف سیلاب، غربت، معیشت تباہ اور 73رکنی کابینہ، آپ ایڈوائس کریں گے کہ مختصر سے کابینہ رکھی جائے؟ مولانا فضل الرحمن: حکومت میں جتنی زیادہ پارٹیاں ہوں گی اتنا ہی زیادہ آپ کو اکاموڈیٹ کرنا ہوگا، اسی لئے اصول سمجھیں کہ تحریک جب چلتی ہے تو سارے مل کر چلائیں تو تحریک طاقتور ہوگی، حکومتیں جو ہیں اگر آپ تنہا حکومت کریں گے وہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے، جتنے زیادہ اس میں لوگ شامل ہوتے ہیں وہ کمزور چلتی ہے، اس میں بہت سے لوگوں کو راضی رکھنا، پھر جہاں ایک حکومت ایک دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے۔
اسلام آباد ڈی چوک اسلام آباد پر تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر جبکہ آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں...
لاہور بانی ایم کیو ایم کی صاحبزادی پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ بانی نے اپنی بیٹی کو ملکی...
کراچی جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘’میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ...
اسلام آباد "حکومتی ماہرین" کو توقع ہے کہ وہ زیادہ تردد کے بغیر دونوں پارلیمانی ایوانوں میں دو تہائی اکثریت...
اسلام آبادآرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس میں عدالتی فیصلہ آنے کے بعد حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس...
اسلام آبادپاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ،مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کی عدم موجودگی میں...
اسلام آباد کے الیکٹرک کو گیس دینے سے حکومت کو 80 ارب روپے کی بچت کا امکان، ڈائیورژن سے بجلی کی قیمت 10 سے 15 روپے...
اسلام آباد وفاقی حکومت نے سر کاری ملازمین کے جنرل پراویڈنٹفنڈ اور اسی نوعیت کے دیگر فنڈزکے شرح منافع میں کمی...