کراچی(ٹی وی رپورٹ)صوبائی وزیر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ اس میں شک نہیں کراچی میں کرائم ضرور ہے، جرائم ہورہے ہیں جسے کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کا م کررہی ہے، ناظم جوکھیو اور شاہزیب قتل کیسوں میں متاثرہ خاندانوں کو تحفظ فراہم کیا گیا، عوام وارداتوں کی رپورٹ درج کرائیں انہیں مکمل تحفظ دیں گے، سندھ پولیس کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت ہے، نئے پولیس اہلکار بھرتی کررہے ہیں ان کی تربیت آرمی سے کرائی جارہی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، پروگرام میں ڈی آئی جی ایسٹ مقدس حیدر، سابق آئی جی پولیس کلیم امام و دیگر نے بھی گفتگو کی۔ شرجیل میمن نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے سیف سٹی کیلئے بجٹ میں پیسے رکھے ہوئے ہیں، سندھ میں اچھی شہرت کا حامل آئی جی پولیس لگایا گیا ہے، حکومت کی طرف سے آئی جی کو جرائم پر قابو پانے کیلئے فری ہینڈ دیا گیا ہے، پولیس لوٹ مار کاجو سامان برآمد کرتی ہے وہ میڈیا پر اجاگر نہیں کرپاتی ہے، آئی جی پولیس کو کہا ہے کہ اپنی کارکردگی سے عوام اور میڈیا کو روزانہ کی بنیاد پرا ٓگاہ رکھنے کیلئے ڈپارٹمنٹ بنائیں، کراچی میں پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں کیلئے کوئی ٹینڈر سسٹم موجود نہیں ہے، جیو کے نمائندے کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ پولیس کراچی میں دہشتگردی کے تمام بڑے واقعات کے ذمہ داران تک پہنچی ہے، بہت سارے لوگ جرائم کو رپورٹ ہی نہیں کرتے ہیں، متاثرہ شخص اگر عدالت میں ملزمان کو پہچاننے کیلئے تیار نہیں تو پراسیکیوشن کیا کرسکتی ہے، سینٹرل جیل سے کسی قیدی کی رات کے وقت باہر جانے کی بات بے بنیاد ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی میں بھرپور کوشش کے بعد سب سے بہترین آفیسرز کی تقرری کی ہے آئی جی سندھ کو جرائم کی روک تھام کے لئے فری ہینڈ دیا گیا ہے بہت سے لوگ جرائم کی رپورٹ نہیں کراتے ہیں۔ سیف سٹی تھوڑی بہت تاخیر کا شکار رہا لیکن سندھ حکومت نے کے لئے سو فیصد فنڈنگ رکھ دی ہے۔ جرائم ہو رہے ہیں جس کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کام کر رہی ہے۔ سینٹرل جیل سے کسی قیدی کی رات کے وقت باہر جانے کی بات بے بنیاد ہے۔ ناظم جوکھیو اور شاہزیب قتل کیسز میں متاثرہ خاندان کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ کرائم رپورٹ کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں لیکن یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں ہے حالانکہ قانون میں اس حوالے سے ترامیم بھی کافی کی گئی ہیں کہ گواہوں کو تحفظ دیا جائے۔ چوری کے دوران جو مرڈر ہوتے ہیں اس کے 68 کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور اس میں سے 37 کیسز ہمارے سندھ پولیس نے ڈٹیکٹ کئے ہیں ڈٹیکٹشن ہے 54.4 فیصد ہے اس میں 180 ملزمان کی تلاش جاری ہے اور 69 کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ چوری کے دوران جو لوگ زخمی ہوئے ہیں اس میں پورے کراچی میں جو رپورٹ ہوئے ہیں وہ 230 کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور اس میں 92 کیسز ڈٹیکٹ ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک کلپ سسٹم سندھ گورنمنٹ متعارف کرا رہی ہے۔ کراچی میں کرائم ضرور ہے اس میں شک نہیں ہے لیکن سندھ گورنمنٹ کی ویل بالکل واضح ہے سیاسی مداخلت کا کسی کو شوق نہیں ہے اور سیاسی مداخلت اگر ہوتی تو ہائسٹ لیول پر ہوتی نیچے کی سطح پر نہیں ہوتی۔ طلحہ ہاشمی گفتگو (رپورٹر) موبائل فون اور کیش کے چھیننے کی بات کریں پچھلے دس سالوں میں تقریباً بارہ ہزار تھیں تو گزشتہ سال چوبیس ہزار چھ سو ہیں کار چھیننے کی واردتیں پہلے کے مقابلے میں کچھ کم ہوئیں اس سال گزشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ گزشتہ سال گاڑیاں چوری ہوئیں وہ تھیں اٹھارہ سو اٹھانوے موٹرسائیکل چھیننے کی وارداتیں گزشتہ دس سالوں میں دوسری ہائسٹ ہے 2013 میں اس سال پانچ ہزار ایک سو انیس تھیں گزشتہ سال چار ہزار پانچ سو پچاس۔ بہت سے لوگ چھیننے کی رپورٹ نہیں کراتے۔ ڈٹیکشن ریٹ کی یہاں بات کی گئی لیکن اگر کسی کے گھر میں واردات ہو اور آٹھ ڈکیت چالیس لاکھ کی ڈکیتی ماریں تو دو ڈکیت کو پکڑ کر اور لاکھ دو لاکھ ریکوری کرکے اسے ڈٹیکشن کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ افسران کے ٹین ایئر سے متعلق کہا کہ یہاں پولیس حکام کو ٹین ایئر دیئے گئے ہیں۔ ایس ایس پی ویسٹ کو آج تک پوسٹ کیوں نہیں کیا جاسکا۔ ایک افسر کو لگایا گیا دو گھنٹے بعد ہٹا دیا گیا کراچی میں ایس ایس پی سے اوپر کی کتنی پوسٹیں ہیں جسے آئی جی سندھ اپنی مرضی سے لگا سکتے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک مہینہ ہوگیا ایس ایس پی ویسٹ کی پوسٹنگ کیوں نہیں ہوسکی، مقدس حیدر گفتگو (ڈی آئی جی ایسٹ) اس میں شک نہیں کہ پولیس کو انویسٹی گیشن بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور وارداتوں میں کمی کے لئے اقدامات کر رے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم نے کافی حد تک اس کو کنٹرول کیا ہے۔ ڈی آئی جی ایسٹ مقدس حیدر نے کہا کہ فل فرائی یا ہاف فرائی کی اصطلاح پروفیشنل پولیسنگ کا حصہ نہیں ہے، ایسی اصطلاحات سڑکوں پر استعمال ہوتی ہیں، 2021ء میں اسٹریٹ کرمنلز کے ساتھ 330مقابلوں میں 47ڈکیت مارے گئے جبکہ 185زخمی ہوئے، 2022 میں پولیس اب تک تقریباً 650ان کاؤنٹر کرچکی ہے جس میں 89ڈکیت مارے گئے جبکہ 765 زخمی ہوئے ہیں، ان ڈکیتوں میں 70فیصد ملزمان پہلے بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں، اگر صرف نمبرز پورے کرنے کیلئے لوگوں کو گرفتار کررہے ہوتے تو عدالتوں میں واضح ہوچکا ہوتا۔ کلیم امام گفتگو (سابق انسپکٹر جنرل پولیس) اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی بنیادی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ویل نہیں ہے اور اسٹریٹجی کے نفاذ کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا۔ سیلاب کی وجہ سے بھی لوٹ مار میں اضافہ ہوا ہے بیروزگاری بھی ایک وجہ ہے اور کئی دوسری وجوہات ہیں اس پر ہر زاویہ سے ریسرچ ہوچکی ہے اور حل کرنے کے طریقے موجود ہیں۔ اچھے افسران موجود ہیں انہیں ٹین ایئر سیکورٹی دینے کی ضرورت ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دو چار مہینے میں ہٹا دیا جائے آپریشنل خودمختاری اور ریسورسز دینے کی ضرورت ہے۔ کاشف مشتاق گفتگو (رپورٹر) شہری مزاحمت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملزمان اسلحہ کا استعمال کردیتے ہیں۔ پولیس افسران کہتے ہیں کہ شہری اُن کی مدد کریں جب پولیس سے سوال کیا جاتا ہے کہ شہری کس طرح مدد کریں ہم نے دیکھا کہ 2016 سے 2022 تک مختلف فورسز اور افسران آتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہوپاتا۔ فہیم صدیقی گفتگو (بیوروچیف کراچی) کراچی کا یہ مسئلہ ایسا ہے کہ شاید ہی کراچی کا کوئی خوش نصیب شہری ہو جو اس کرائم سے بچا ہو اگر ہے تو یقینا یہ بات گنیز بک میں ریکارڈ ہونے کے قابل ہے۔ پولیس افسران یا حکومتی نمائندے یہ کہتے ہیں کہ اسٹریٹ کرائم پر قابو پالیا ہے یہ اسٹریٹ کرائم کی تشویش کو کم کرنے کے لئے باتیں کرتے ہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسٹریٹ کرائم اس شہر کی سب سے بڑی مصیبت ہے۔ یہ سب آج کی ناکامی نہیں ہے یہ سندھ اور کراچی پولیس اور سندھ حکومت کی بیس سال کی ناکامی ہے پچھلے بیس سال سے ایسا کرائم ہے جو کراچی کے شہریوں سے چمٹا ہوا ہے اور ہمیں اس سے متعلق کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی کوششیں میڈیا مینجمنٹ تک ہی محدود ہیں۔ ذیشان شاہ گفتگو (رپورٹر) کراچی میں حالیہ بارشوں کے بعد اسٹریٹ کرائم میں بوسٹ آیا ہے کیوں کہ کراچی کی کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جو تباہ حالی کا شکار نہ ہو اسپیشل برانچ نے اس سے متعلق رپورٹ بنائی ہے اور بہت سے ایسے پوائنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ شہری جب ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے گزرتے ہیں تو گاڑیوں کو آہستہ کر لیتے ہیں اور پھر کہیں سے بھی ملزمان آکر انہیں لوٹ لیتے ہیں۔ کراچی کے شہری اسٹریٹ کرمنلز سے عاجز ہیں گھر کے دروازے پر بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سی پی ایل سی کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کے 79 ہزار واقعات ہوئے۔ شہری پندرہ ہزار گاڑیوں 38 ہزار بائیکوں سے محروم موبائل چھیننے کے بائیس ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، موٹر سائیکل کے 34 ہزار سے زائد چھینے جانے کے ساڑھے تین ہزار سے زائد واقعات ہوئے۔ مجموعی طور پر پولیس اور سی پی ایل سی کے اعداد و شمار میں پچاس ہزار سے زائد کا فرق مزاحمت کرنے والے 75 شہری زندگی ہار گئے۔ زیادہ سیکورٹی والے علاقوں میں بھی لوٹ مار۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی میں رواں سال اسٹریٹ کرائمز کی بیس ہزار چار سو سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں 118 گاڑیاں چھینی اور 1451 گاڑیاں چوری ہوئیں سارے واقعات کے پچیس ہزار 328 مقدمات درج کئے گئے کراچی والوں کا حکومتوں ادروں سے سوال اسٹریٹ کرمنلز سے کب پیچھا چھوٹے گا۔ شہری پولیس میں رپورٹ کرانے کی بجائے سی پی ایل سی میں رپورٹ کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈی آئی جی ایسٹ مقدس حیدر کہتے ہیں کہ پولیس کو انویسٹی گیشن بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور وارداتوں میں کمی کے لئے اقدامات کر رے ہیں۔ پولیس، سی پی ایل سی کے اسٹریٹ کرائم ڈیٹا میں پچاس ہزار کا واضح فرق ہے۔ سابق انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی بنیادی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد ڈی چوک اسلام آباد پر تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر جبکہ آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں...
لاہور بانی ایم کیو ایم کی صاحبزادی پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ بانی نے اپنی بیٹی کو ملکی...
کراچی جیو کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘’میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ...
اسلام آباد "حکومتی ماہرین" کو توقع ہے کہ وہ زیادہ تردد کے بغیر دونوں پارلیمانی ایوانوں میں دو تہائی اکثریت...
اسلام آبادآرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس میں عدالتی فیصلہ آنے کے بعد حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس...
اسلام آبادپاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ،مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کی عدم موجودگی میں...
اسلام آباد کے الیکٹرک کو گیس دینے سے حکومت کو 80 ارب روپے کی بچت کا امکان، ڈائیورژن سے بجلی کی قیمت 10 سے 15 روپے...
اسلام آباد وفاقی حکومت نے سر کاری ملازمین کے جنرل پراویڈنٹفنڈ اور اسی نوعیت کے دیگر فنڈزکے شرح منافع میں کمی...