نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ اور اس کا ڈیزاسٹر

ڈاکٹر مجاہد منصوری
15 اکتوبر ، 2022
(گزشتہ سے پیوستہ )
قارئین کرام! زیر بحث موضوع پر پاکستانی میڈیا کی تاریخ اور تادم ارتقا کے تناظر میں تجزیے سے یہ تو اخذ ہوگیا کہ ہمارے میڈیا نے تحریک قیام پاکستان کا ہمرکاب ہو کر جہاں حصول پاکستان کے نظریے، سیاسی پلیٹ فارم اور قیادت کے شانہ بشانہ حقیقی اور بڑی تاریخ سازی میں اپنا کار عظیم انجام دیا وہاں یہ حاصل مملکت میں مسلسل سیاسی عدم استحکام، نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں اور آمرانہ و سول ادوار کی بھی سختیوں، پابندیوں سے نپٹتا ملکی تعمیر وترقی و دفاع میں بڑا کردار ادا کرتا، آج بھی اپنی آزادی اور سمت خود درست کرنے (مطلوب ایجنڈا سیٹنگ) کے بڑے علمی اور پیشہ ورانہ چیلنج دوچار ہے۔ گزری صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں ملک میں برپا ہونے والا ٹیلی کمیونیکیشن کا انقلاب پیجر اور فیکس سے شروع ہو کرموبائل فون کے سرگرم استعمال تک قومی تاریخ ابلاغیات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ برپا تو یہ عالمی سطح پر ہوا لیکن ترقی پذیردنیا میں یہ جنوبی ایشیا میں ہی تیز تر رفتار سے شروع ہوا۔ ہماری سیاست و معیشت، سماجی رویوں اور حال و مستقبل کے بنے اور امکانی حالات حاضرہ پر اسکے گہرے اور مسلسل اثر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ابلاغی انقلاب میں سوشل میڈیا کا جو انقلاب آفریں ریلا جس تیزرفتاری اور اثر سے داخل ہوا ، اس میں کل قومی ابلاغی بہائو کے بے پناہ مثبت اور منفی اثرات کا پیچیدہ ملغوبہ ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک کیلئے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اب یہ ہی ہمارا وسیع، بے قابو اور کثیر الجہت ’’قومی کمیونیکیشن فرنٹ‘‘ ہے جس کی مطلوب لیکن آزادانہ مینجمنٹ اور استعمال سے ہم نے اسکے بڑے ڈیزاسٹر سے بچنا ہے جسکی ابلاغی انقلاب میں tendency بہت بڑے فیصد میں موجود ہے اور اپنا منفی رنگ بھی دکھا رہی ہے۔ اگرچہ ایک مخصوص اور مسلسل فلیکچوئیشن کے ساتھ کسی حد تک اس کا ڈگمگاتا توازن اپنی جگہ ہے لیکن واضح ہوتے ڈیزاسٹر بھی۔ اس کی تازہ ترین مثال ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے سیاسی مخالفین کی فیک وڈیومیکنگ کا ڈرٹی دھندہ ہے۔ہماری قومی سیاست میں یہ قابلِ مذمت حربہ بڑے جارحانہ انداز میں اپنی جگہ بنا رہا ہے، کیونکہ مین اسٹریم میڈیا کیلئے یہ موضوع یکدم وارد ہوا۔ اسے بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پر مشتمل خبروں کی ٹریٹمنٹ کیسے کرنی ہے۔ ہر وقت میڈیا کی سمت درست اور مثبت رکھنے کی فکر میں مبتلا رہنے والے ریاستی منتظمین خود الزامات کی حد تک اس میں ملوث ہیں۔ سب سے قابل تشویشناک امر یہ ہے کہ ملکی ایوان اقتدار اس سے محفوظ نہیں۔ یہ معاملہ مخصوص سیاسی جماعتوں اور قائدین کی جعلی یا اصلی ویڈیو یا گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگ کا نہیں حساس ترین سرکاری و سیاسی گفتگو حتیٰ کہ سلامتی امور سے متعلق معلومات کاہے۔ انفرادی نجی زندگی کے امور کی ریکارڈنگ کو ماس کمیونیکیشن کے فلو میں شامل کرنا تعلیمات و شعائر اسلامی سے متصادم ہے۔خدا را جتنے بھی اختلافات ہیں اور ان کی جتنی بھی شدت ہے لیڈر اگر اپنی اَنا کے چکر میں اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے تو اپنی اپنی جماعت کے ذمہ داران کو اجازت ہی نہ دیں بلکہ انہیں سیاسی حریفوں سے رابطے کے کارخیر کا آغاز کرنے کی ہدایت کریں۔ ہماری سیاست میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کایہ مہلک استعمال پختہ ہوگیا تو یقین کیجئے یہ معاشرے کی تباہی ہوگی۔ بیرونی دشمن توپہلے ہی یہ کمیونیکیشن وار شروع کئے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کی انفولیب میں اس کا دنیا میں عام ہو جانیوالا پاکستان مخالف دھندہ بے نقاب ہو چکا ہے کہ کس طرح بھارت وہاں مکمل جعلسازی ہے،ہمارے انٹرنیشنل امیج کو بری طرح خراب کرنے والا کالا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کس طرح کراچی کے اسٹیڈیم میں اترتے اترتے ٹورنامنٹ چھوڑ کر واپس وطن چلی گئی اور کیوں حکومت نے ہماری ایک نہ مانی، پھر بے نقاب ہوا کہ یہ تو بھارتی میڈیا کے دھندہ بازوں کے پاکستان پر بیرونی ابلاغی حملے سے ہوا۔ اگر یہ سلسلہ اندرون ملک فقط سیاسی اختلاف رائے یا حکومت و اپوزیشن کی طرف سے جاری رہ کر ملکی سیاسی ابلاغ کا مستقل فیچر بن گیا تو یہ مستقل تشویشی کیفیت ہماری عملی سیاست، اقتصادی سرگرمیوں اور سماجی رویے کے لئے اتنی مہلک ہوگی کہ اس کی مختلف مہلک شکلوں اور ہونے والے سماجی سیاسی اور معاشی خسارے کا اندازہ لگانا ممکن نہیں رہے گا۔
بھارت میں بھی اندرون ملک ہی کالے، جارح اور متعصبانہ ابلاغ سے جو کچھ ہوگیا ہے اس میں نئی دہلی اپنی ’’سیکولر جمہوری ترقی پذیر عالمی طاقت‘‘ کی شناخت کھو بیٹھا اور اب دنیا اسے ہندو بنیاد پرست ریاست کے طور پرجان رہی ہے۔ کئی عازمین سرمایہ کاری نے بھارت میں اپنے صنعتی منصوبے ترک کر دیئے، جو پہلے سے موجود تھے، ان میں کئی لپیٹ دیئے گئے اور بھارتی معاشرہ خوف اور اشتعال و ہیجان میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ مطلوب ابلاغ سے ہی بھارت کو سیاسی تباہی سے بچایا اور حکومتی رویے کو بدلا جا سکتا ہے۔ شہرہ آفاق بھارتی تفریحی ابلاغ کا مرکز و محور بالی وڈ زوال پذیر ہوگیا۔ ہماری عدالتیں، تفتیشی ادارے، سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل اور ٹی وی اسکرین پر جلوہ گر رہنے والے سیاسی جماعتوں کے ترجمان بھی بلڈ پریشر کے مریضوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کراچی کا اسٹاک ایکسچینج اور بڑے شہروں کے ایوان ہائے صنعت و تجارت، ہر وقت ہی سیاسی زلزلوں کے خدشات اور مسلسل ہونے والی وائبریشن سے سہم رہے ہیں۔ ہماری کمیونیکیشن وار سرحدوں سے باہر کے پاکستان دشمن مخالفین کے خلاف نہ ہونے کے برابر اور آپس میں بلند درجے پر ہے۔ اس پر متعلقہ اسٹیک ہولڈر کا قومی ڈائیلاگ اتنا ہی مسلسل ہونا ترجیحی بنیاد پر شدت سے مطلوب ہے کہ کل گورننس اور سیاسی دھارا اس میں جکڑتا جا رہا ہے، جس سے حکومتی اداروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے سرگرم صارف کا رُخ غلط سمت میں مڑرہا ہے۔ (جاری ہے)