ایک ’’سینئر‘‘ تجزیہ کار کا تجزیہ

عطاء الحق قاسمی
15 اکتوبر ، 2022
جب کبھی کوئی قومی یا بین الاقوامی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس پر تجزیئے سننے کو ملتے ہیں۔ ان میں سے جونیئر تجزیہ نگار کوئی نہیں ہوتا سب کے نام کے ساتھ ’’سینئر تجزیہ نگار ‘‘لکھا ہوتا ہے۔ میرے اندر بھی ایک تجزیہ نگار چھپا بیٹھا ہے جسے میں نے کبھی باہر نہیں آنے دیا۔امریکی صدارت کے لئے منعقد ہونے والے گزشتہ انتخابات میں ،میں نے بڑی مشکل سے اپنے اندر کے ’ ’خفیہ‘‘ تجزیہ نگار کو باہر نہ آنے دیا ۔تمام تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا مگر مجھے سوفیصد یقین تھا کہ وہ کامیاب ہو گا۔عریاں عورتوں کے ساتھ تصویریں اتروانے والا، کیمرے کے سامنے ان کے نازک اعضا کو ٹچ کرنے والا،نورا کشتیوں کو اسپانسر کرنے والا اور ایک آدھ بار خود بھی اکھاڑے میں اترنے والا ۔ان خصائص کی بنا پر تمام تجزیہ نگاروں کو یقین تھا کہ امریکی عوام کبھی اسےاپنا صدر منتخب نہیں کریں گے۔ حالانکہ اس کی اس ’’سی وی‘‘ کی بنا پر مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ضرور ہو گا ۔میرے جو تجزیہ نگار دوست امریکہ کا خوبصورت چہرہ وہاں کی مہذب سوسائٹی کے آئینے میں دیکھتے ہیں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ امریکی قوم اس طرح کے لفنگے شخص کو امریکہ کا صدر بنا سکتی ہے جبکہ میرے یقین کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یہی عامیانہ حرکات و سکنات تھیں۔ میں نے زندگی کے چند برس امریکہ میں گزارے ہیں چنانچہ ان گزارے ہوئے برسوں میں ،میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ امریکہ کو دنیا کی سپر پاور بنانے والی ایک الگ ’’کلاس‘‘ ہے جس کے ارکان نت نئی ایجادات کرتے ہیں، ملک و قوم کو آگے لے جانے والی پالیسیاں بناتے اور دنیا کے سامنے امریکہ کے خوبصورت (دکھائی دینے والے )چہرے کی تراش خراش کرتے ہیں جبکہ امریکیوں کی اکثریت کا قد کاٹھ، سوچ سمجھ کا زاویہ اور عامیانہ رویے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ہی ہیں چنانچہ مجھے یقین تھا کہ ٹرمپ کامیاب ہو گا ،خواہ اس کے لئے اسے انتخابات میں دھاندلی کرنا پڑے اور ہارنے کے بعد بھی اپنی ہار تسلیم نہ کرنے کی روایت قائم رکھے ۔چنانچہ سب کچھ اسی طرح ہوا، میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا ،اگر تم امریکی عوام کی اکثریت کو ڈونلڈ ٹرمپ کی فوٹو کاپی سمجھتے ہو تو اس سے پہلے وہ قدرے اچھے اور قدرےبرے حکمرانوں کا انتخاب کیوں کرتے رہے، میں نے جواب دیا اس سے پہلے کوئی ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ انتخابی اکھاڑے میں اترا ہی نہیں تھا۔
اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ وضاحت کردوں کہ گھٹیا پن کے لیے ان پڑھ یا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں، یہ جس کے’’نصیب‘‘ میں ہو وہ اسی ذیل میں آ جاتا ہے۔ ان دنوں پاکستان میں بھی ایک ڈونلڈ ٹرمپ میدان عمل میں ہے اور اس کے پیرکاروں میں ان پڑھ ،لوفر اور لفنگے ہی نہیں انتہائی پڑھے لکھے ،کلچرڈ اور شریف النفس لوگ بھی شامل ہیں ۔میں کسی کا نام نہیں لوں گا کیونکہ میں سیاسی تجزیہ نگار کبھی نہیں رہا مگر کچھ نشانیاں بتا دیتا ہوں ،و ہ ہینڈسم ہے ،عالمی شہرت یافتہ ہے ،فنِ خطابت کا ماہر ہے اور جھوٹ بھی اتنے عمدہ انداز میں بولتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے، وہ ایک بار کامیاب ہو چکا ہے اور دوسری ٹرم کے لئے عام رائے یہ ہے کہ وہ ایک بار پھر کامیاب ہو گا ۔دراصل اس کے حامی بہت ’’ووکل‘‘ہیں اور دوسری جماعتوں کے حامیوں کی اکثریت نےچپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ۔یہ لیڈر بلاجھجک اپنے مخالفین پر بہتان باندھتا ،انہیں گندے ناموں سے پکارتا اور ان کا مضحکہ اڑاتا ہے ،جس کا مزا لینے والے خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر یہ محبِ وطن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کالیڈر پاکستان کو ایک ورلڈ پاور بنائے گا، اب کچھ عرصے سےمخالف جماعتوں نے بھی یہی لب ولہجہ اپنانے کی کوشش کی ہے مگر، کہاں وہ بات مولوی مدن کی سی ۔
آپ اب سوچ رہے ہوں گے کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس حوالے سے کوئی پیش گوئی کروں تو ٹھیک ہے جناب سو میرا خیال یہ ہے کہ ماضی کے انتخابات میں اس جماعت کی حکومت بنانے میں بہت واضح طور پر ایک ہاتھ برسرعمل تھا، اب یہ ہاتھ دو حصوں میں بٹ گیا ہے اور لوگ بھی آہستہ آہستہ اس لیڈر کی دو عملیوں ،یوٹرنوں ،بھول بھلکڑیوں ، مضحکہ خیز دعوئوں ،ساٹھ لاکھ مکان، ایک کروڑ نوکریاں ،ایک ارب درختوں وغیرہ کی بھول بھلیوں نے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو کنفیوژ کر دیا ہے ۔سو اب اس لیڈر کی کامیابی یا ناکامی کا سارا دارومدار ’’حکومت سازوں‘‘ کے فیصلے سے منسلک ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس انتخابی عمل میں ناکامی اس بات کا اشارہ ہو گی کہ اس کیلئے آئندہ کے راستےہمیشہ کیلئے مسدود ہو سکتے ہیں۔