دنیا بھر کی طرح پاکستان میں دیوالی کی خوشیاں منانے کا سلسلہ جاری ہے، میری طرف سے دیوالی کے پْرمسرت موقع پر آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد قبول ہو۔ہندوقمری کلینڈر کے کارتک مہینے کے 15ویں دن سے دیوالی کی روشنیوں بھری تقریبات کا آغاز کر دیا جاتا ہے،رواں سال پاکستان ہندو کونسل کے زیراہتمام آزادی کی پچھتر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ روشنیوں کا تہوار دیوالی نہایت منفرد انداز میں کراچی کے کھُلے سمندر میں منایا گیا اورعرصہ دراز سے اندھیروں میں ڈُوبا قدیمی منوڑا مندر روشنیوں سے جگمگا اٹھا،پاکستان ہندوکونسل نے کے پی ٹی، نیوی اور منوڑا کینٹ بورڈ کے تعاون سے کیماڑی بندرگاہ تا منوڑا جزیرہ بذریعہ کشتی روانگی کیلئے خصوصی انتظامات کیے، میڈیا نمائندگان کیلئے خصوصی بوٹس/لانچز مختص کی گئیں، دوران سفربحیرہ عرب کے کھُلے پانیوں میں آتش بازی کے زبردست مظاہرے نے شرکاء کو خوب محظوظ کیا، منوڑا مندر میں دیوالی کی مرکزی تقریب کے دوران پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے خصوصی پراتھنا(دُعا) کے بعد عشائیہ بھی دیا گیا۔ہندو دھرم میں دیوالی کے تہوارکو بہت اہمیت حاصل ہے، یہ تہوار روشنیوں کا تہوار کہلاتا ہے جو روشنی کی اندھیرے پر جیت کی عکاسی کرتا ہے،دیوالی کا دن یہ درس دیتا ہے کہ روشنی کی ایک کرن اندھیرے کا خاتمہ کرنے کیلئے کافی ہے، بدی کی قوتیں چاہے جتنی زیادہ طاقتور ہوں، آخرکار نیکی سے ہار جاتی ہیں، ظلم و زیادتی اور مایوسی کی اندھیری رات کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتی ہے۔ ہندو دھرم کے مطابق دیوالی کا جشن شری رام کی اپنی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن کی گھرواپسی کی خوشی میں منایا جاتا ہے، وہ چودہ سال بعد لنکا کے طاقتور راجا راون کو شکست دینے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹے تھے، انکی واپسی کی خوشی میں پورے علاقے میں جشن منایا گیا تھا۔کراچی کے ساحلی جزیرے منوڑا پرواقع ہندو مندرسمندر کے دیوتا ورن دیو سے منسوب ہے جو ہندوعقیدے کے مطابق کھلے سمندروں میں جانے والے مچھیروں کی حفاظت کرتا ہے،کم از کم چارسو سالہ قدیم ترین مندر کی پہلی تعمیر 1623ء میں ہوئی،بعد ازاں مختلف ادوار میں ہندو دھرم کے ماننے والوں نے اسکی تزئین و آرائش میں اپنا کردار ادا کیا، مقامی سندھی کمیونٹی کے مطابق اس مندر کو جھولے لال مندر بھی کہاجاتا ہے، ایک زمانے میں یہاں ہر ماہ چاند کی پوری تاریخوں (فُل مون)کے موقع پر خصوصی پوجا اور پراتھنا کا اہتمام کیا جاتا تھااور کراچی شہر سمیت گردونواح کے بے شمار لوگ مذہبی عقیدت کا مظاہرہ کرنے آیا کرتے تھے، تاہم تقسیم ِ ہند کے بعد یہاں کی مقامی ہندو کمیونٹی نقل مکانی کرگئی اور ایک طویل عرصے تک یہاں اندھیروں کا راج رہا، کئی دہائیوں تک دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی حالت خستہ ہوتی چلی گئی، پڑوسی ملک میں سانحہ بابری مسجد کے ردعمل میں چندشرپسند عناصر نے منوڑا مندر کو بھی نشانہ بنایا جسکی وجہ سے یہ یاتریوں کیلئے بند کردیا گیا۔مجھے فخر ہے کہ بطور سرپرستِ اعلیٰ میں نے منوڑا مندر کی اراضی کو کامیابی سے واگزار کرالیا ،پاکستان ہندو کونسل نے اسکا انتظام اپنے ہاتھ میں لیکر وہاں ایک مہاراج تعینات کیا جو
آج منوڑا جزیرے میں بسنے والا واحد ہندو گھرانہ ہے۔رواں برس منوڑا جزیرے پر دیوالی کا جشن منانے کا فیصلہ دوبڑی وجوہات کی بنا پر کیا گیا،نمبر ایک دیوالی کا اصل پیغام روشنی کی بدی پر فتح کو اجاگر کرنا،دوسرے عالمی برادری کے سامنے یہ ثابت کرنا کہ پاکستان میں غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی میسر ہے۔ ایک اور بڑی وجہ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے منوڑا کی قدیمی بستی کو مذہبی رواداری کیلئے رول ماڈل بناکر پیش کرنا ہے جہاں صدیوں سے ہندو، مسلمان، کرسچن سمیت مختلف مذاہب کے ماننے والے ہنسی خوشی ایک ساتھ رہ رہے ہیں،منوڑا جزیرے کی تاریخ میں کبھی مذہبی وجوہات کی بنا پر کوئی تصادم نہیں ہوا، گزشتہ دنوں بھی دیوالی کے موقع پر مسلمان، کرسچن اور دوسری کمیونٹی کے لوگ خوشیاں منانے کیلئے ہندو برادری کے ساتھ شانہ بشانہ شریک تھے۔منوڑا جزیرے میں انگریزوں کے دور کے قائم کردہ چرچ بھی موجود ہیں، بالخصوص سینٹ پال اور سینٹ انتھونی چرچ انگریز دورِ حکومت کے فن تعمیر کی ایک مثال ہیں، منوڑاکی مقامی کرسچن کمیونٹی کے علاوہ دیگر سیاح بھی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق منوڑا کی بستی میں لگ بھگ ڈیڑھ سو کرسچن گھرانے آباد ہیں۔جزیرے پر واقع قدیم شافعی مسجد اور یوسف شاہ غازی المعروف سمندری بابا کا مزار زائرین کی توجہ کا مرکز ہے، مقامی آبادی کے مطابق وہ عبداللہ شاہ غازی کے بھائی تھے، کچھ مورخین منوڑا کی اس درگاہ کوسفید مسجد / سفید مزار کانام بھی دیتے ہیں۔ منوڑا جزیرے میں شری گرونانک سکھ صاحب نامی ایک گوردارہ بھی موجود ہے جسکی تعمیر پاکستان بننے سے قبل 1935ء میں کی گئی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ رواں برس دیوالی کی کامیاب تقریب نے ثابت کردیا کہ منوڑا جزیرہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہونے کے باوجود مذہبی ہم آہنگی، برداشت اور رواداری کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے،تاہم یہاں کے باسی بہتر رہائش اور روزگاری مواقع کی تلاش میں کراچی شہر سمیت بیرون ملک بھی منتقل ہورہے ہیں۔میری خواہش ہے کہ منوڑا مندر کو ماضی کی طرح آباد کرنے کیلئے باقاعدگی سے تقریبات کا انعقاد کیا جائے، کراچی کے ساحلِ سمندر پر واقع مذہبی رواداری کا حامل یہ خوبصورت قدیمی جزیرہ مذہبی سیاحت کے ذریعے پورے کراچی شہر سے زیادہ ریونیو جنریٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
بلوچستان میں صحافت کی اولین بنیادیں رکھنے والے خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی اور یوسف عزیز مگسی سے لے کر آج تک...
اِس مبارک میں ٹوٹا ہے آہحشر یہ کیسا بلوچستان پر رحمت و برکت کے ہیں یہ روز و شب رحم کر معبود! پاکستان پر
آج میں اس شخصیت کا تذکرہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو سَر شیخ عبدالقادر کے نام سے متحدہ ہندوستان میں معروف تھی۔...
میرا باورچی ریاض سرگودھا کا تھا اور بہادر ساہیوال سےمگر اس کی ساری عمر لاہور ہی میں بسر ہوئی تھی ۔ناروے جانے...
سیدنا عثمانؓ نے جب یہ سناکہ انہیں شہید کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں تو آپ نے ان ظالموں کو مخاطب کرتے ہوئے...
نظام ہائے ریاست بنانے اور چلانے والے حلف برداروں پر ملکی ابتری میں واضح ہو:کامران و کامیاب ممالک و اقوام...
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ توہین آمیز تبصروں کے شور وغل اور غیر فعالیت کے نرغے میں آیا ہوا پاکستان مسلسل زوال کی...
کسی قوم میں تعلیمی صورتحال نہ صرف اسکی معیشت سے جڑی ہے بلکہ سیاسی اور تمدنی ارتقا بھی علمی معیار اور تعلیم کے...