نجی تعلیمی اداروں کا تیزی سے پھیلائو،18فیصد غیررجسٹرڈ

08 نومبر ، 2022

اسلام آباد(نامہ نگار) ادارہ تعلیم، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (UNESCO) کے مشترکہ تعاون سے ادارہ تعلیم و آگہی (ITA) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پاکستان میں غیر رجسٹرڈ اسکولوں کا رجحان عام ہے،ملک کے 18 فیصد تعلیمی ادارے متعلقہ اداروں کی طرف سے رجسٹرڈ نہیں ہے جن میں 14 فیصد پرائمری اور چار فیصد میٹرک لیول کے سکول شامل ہیں۔ پیر کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کا عنوان ”گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2022، تعلیم میں غیر ریاستی عناصر،کس نے پایا۔کس نے کھویا“تھا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کے تیزی سے پھیلاوٴ کے لیے مضبوط نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ معیار خطرے میں نہ پڑے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ راولپنڈی کے کل 5000 سکولوں میں سے دو تہائی پرائیویٹ سکولوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہے،سال2016-17ء کی پرائیویٹ سکول مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب میں تقریباً 54000 پرائیویٹ سکولوں نے پری پرائمری تعلیم کو مختلف زمروں کے تحت پیش کیا۔ پاکستان میں ایک تہائی طلباء پرائیویٹ فنڈ سے چلنے والے اسکولوں میں جاتے ہیں جن میں سے 45 فیصد نجی تعلیم میں اور 25 فیصد شہری علاقوں میں ریاستی تعلیم میں اضافی پرائیویٹ ٹیوشن کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 8 فیصد طلباء دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں، دیگر جنوبی خطہ کے ممالک کے مقابلے میں، پاکستان میں ٹیوشن کا ایک فرنچائز ماڈل رائج ہے، جس میں کمپنیاں یا اکیڈمیاں سکول اور ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہیں، اور اپنااپنا نصاب اور نصابی کتابیں تیار کر رہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ نجی طور پر تعلیم یافتہ اور ریاستی تعلیم یافتہ طلباء کے درمیان سیکھنے کے نتائج میں واضح تفاوت ہے۔ ملک بھر میں صرف 14.3 فیصد خاندانوں کو لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ تک رسائی حاصل ہے اور صرف 4 فیصد آبادی آئی سی ٹی کی بنیادی مہارتوں سے واقف ہے، کم بجٹ والے سرکاری اسکولوں کے لیے ریموٹ لرننگ کا اہتمام کرنا بہت مشکل تھا۔ نجی سکولوں میں داخلہ 2019 میں 23 فیصد سے کم ہو کر 2021 میں 19 فیصد رہ گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وسیم اجمل نے کہا کہ اس رپورٹ نے تعلیم میں نجی اور سرکاری شعبے کے بارے میں بہت سی خرافات کو توڑا ہے کیونکہ اس سے عالمی سطح پر یہ بصیرت سامنے آتی ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ رپورٹ نے تدریسی نتائج، لاگت اور بہت سے انتظامی طریقوں کی تاثیر پر سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت رپورٹس کے بہت سے پہلووٴں پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے جبکہ تعلیمی شعبے کے لیے جامع پالیسیاں بنانے کے لیے اسے ایک روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے۔