صبح سے اس خلفشار سے دوچار ہوں۔ 60 فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی والے عظیم ملک کو ہم نے بوڑھا کردیا ہے۔ جہاں 15 سے 25 سال تک کی عمر کے نوجوان اکثریت میں ہیں۔ اس مملکت کے چہرے پر جھریاں کیوں ہیں۔ اس کے بالوں میں سفیدی کیوں امڈ آئی ہے۔ اس کی کمرکیوں دوہری ہورہی ہے۔ اس کی آواز بیٹھی بیٹھی کیوں ہے۔سوال چوپالوں میں یہی ہے۔ ڈرائنگ روموں میں یہی بحث ہے۔ دفتروں میں یہی مخمصہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ پاکستان ان بحرانوں سے کیسے نکلے گا۔؟
پنجاب ،کے پی کے میں ہجوم یہ کہہ رہے ہیں کہ صاف شفاف الیکشن سے ملک کو استحکام نصیب ہوسکتا ہے۔ تاریخ کا دھارا ایک سمت میں بہنے لگ سکتا ہے۔ انارکی کے بڑھتے قدم روکے جاسکتے ہیں۔ 1985سے ہمارے ہاں کتنے الیکشن ہوچکے ہیں۔ کئی بار قبل از وقت بھی لیکن ان انتخابات سے ملک کو کیا حقیقی نمائندگی مل سکی۔ کیا عوام ایسی پارلیمنٹ وجود میں لاسکے۔ جہاں حقیقی مسائل پر پہلے سیر حاصل بحث ہو پھر اتفاق رائے سے قانون سازی ہو۔ ایسے قوانین جنہیں سپریم کورٹ آئین سے متصادم کہہ کر رد نہ کر سکے۔ ایسے قوانین جنہیں کوئی اور ادارہ پامال نہ کر سکے۔ جو ملک کو واقعتاً آگے کی طرف لے کر جائیں۔
یہ جملہ تو اعلیٰ عدالتوں میں بھی سنائی دیتا ہے۔ میڈیا میں بھی کہ پارلیمنٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے۔ سپریم کورٹ سے بھی۔ مسلح افواج سے بھی۔ میڈیا سے بھی۔ یقینا ً جمہوریت مضبوط پارلیمنٹ سے ہی پختہ ہوئی ہے۔ میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ایک حقیقی، فعال پارلیمنٹ ہی حقیقی آزادی، حقیقی جمہوریت اور حقیقی استحکام لاسکتی ہے۔ اس کیلئے حقیقی معنوں میں ایسی قومی سیاسی پارٹیاں ناگزیر ہیں۔ جن کا ڈھانچہ بھی جمہوری ہو۔ جہاں اصل مسائل پر کارکنوں اور عہدیداروں کے درمیان مباحث ہوتے ہوں۔ جہاں پارٹی کے ضلعی ،صوبائی ،قومی کنونشن سالانہ بنیادوں پر باقاعدگی سےمنعقد ہوتے ہوں۔ جہاں ہر کارکن آزادی سے اپنا اظہار کرسکے۔ جہاں ہر انتخابی حلقے میں امیدوار کو ٹکٹ کارکنوں کی مرضی سے دیا جاتا ہو۔ جب تک ایسی پارٹیاں نہیں ہوں گی۔ حقیقی فعال پارلیمنٹ وجود میں نہیں آسکتی۔
بات موجودہ پارلیمنٹ سے شروع کرتے ہیں۔ اوّل تو یہ مکمل پارلیمنٹ نہیں ہے۔ ایک بڑی پارٹی نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ حالانکہ اس میں بھرپور شرکت اس کا قومی فریضہ ہے۔ سڑکوں پر پُر امن احتجاج کی آئین اجازت دیتا ہے مگر آئین کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عوام نے جن ارکان کو اپنے ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے۔ وہ اس عظیم ادارے میں، جو سب سے بالاتر ہے، اپنے مسائل پر آواز بلند کریں۔ آئندہ انتخابات جلد چاہتے ہیں تو اس کیلئے بھی پارلیمنٹ میںبات کریں۔ اس وقت یہ پارلیمنٹ نامکمل بھی ہے، یکطرفہ بھی ہے۔ ایسی صورت میں وہاں کے اجلاسوں میں ہونے والی کارروائی اسے کسی شکل میں بالادست ادارے کا درجہ نہیں دلاسکتی ۔ وہاں اچانک عجلت میں منظور ہونے والے قوانین، عدالتوں میں چیلنج ہوسکتے ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہی پھر دوسرے ادارے پارلیمنٹ پر فوقیت پالیتے ہیں۔ سڑکوں پر اجتماع میں کی گئی تقریریں۔ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں پر حاوی ہوجاتی ہیں۔
صرف اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ایسا نہیں ہورہا ہے۔ 1988سے مختلف انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی ساری پارلیمنٹوں میں بحث کا معیار بہت پست رہا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ واقعی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے اور جب اپنے معاوضے الائونس بڑھانے ہوں تو ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے والے، ایک دوسرے کے جانی دشمن مثالی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔تاہم جب ملک کو درپیش مسائل کے حل کا مرحلہ ہو، انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر ہو تو اکثر ایوان کا کورم پورا نہیں ہوتا۔ ارکان اسمبلی ملک میں۔ بیرون ملک اپنے استحقاق سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن رکن اسمبلی کی حیثیت سے جو ان کے فرائض ہیں، ان کا احترام اکثر نہیں کیا جاتا۔ خاص طور پر جب قومی اہمیت کے بل زیر غور آتے ہیں۔ تو ان پر کھل کر مدلل بحث نہیں ہوتی۔ نیک و بد نہیں دیکھا جاتا۔
سپریم کورٹ جب آئین کی ایسی کسی شق ،ترمیم یا قانون کی تشریح کرتی ہے تو وہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کا ریکارڈ منگواکر دیکھتی ہے کہ قانون مظور کرتے وقت کیا بحث ہوئی۔ کس پہلو پر کیا دلیل تھی لیکن ہمارے ہاں تو زیادہ تر قوانین بغیر بحث کے ہاتھ اٹھاکر منظور کردیے جاتے ہیں۔ فاضل جج حضرات کی طرف سے ایسے تبصرے بھی کئےگئے ہیں۔ 1970کی اسمبلی میں کچھ ارکان تھے۔ جو فی الواقع رات رات بھر تیاری کرکے آتے تھے، کراچی سے پروفیسر عبدالغفور، مولانا شاہ احمد نورانی۔ ایسی شخصیتیں تھیں ۔ پنجاب سے ملک محمد جعفر، میاں محمود علی قصوری، رائو خورشید علی خان، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ان سے پہلے ایوب خان کے دَور میں مشرقی پاکستان کے ارکان بہت تیاری کرکے آتے ان کی تقریریں ہمیشہ پُر مغز ہوتی تھیں۔1988سے جب سے اقتدار میں شراکت کا دَور شروع ہوا ہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی ہمیشہ مجروح رہی ہے۔ سب کو یہ احساس ہوتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ کہیں اور ہے اس لئے پارلیمنٹ میں سنجیدہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر بھرپور بحث نہیں ہوتی۔ پہلے بڑے جاگیردار خاندان اپنے نوجوانوں کو انگلینڈ پڑھنے بھیجتے تھے اور وہ قومی امور سلجھانے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاس بھی دیکھتے تھے۔ واپس آکر وہ منتخب ہوتے اور پارلیمنٹ میں مدلل بحث بھی کرتے تھے۔ اب زیادہ تر بغیر ڈگریوں والے ہیں۔
اب عوامی مسائل پر کھل کر بحث نہیں ہوتی کیونکہ پارلیمنٹ میں electables کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ وہ کسی پارٹی ڈسپلن کے قائل نہیں ہیں۔
ملک کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کیلئے ایسی پارلیمنٹ ناگزیر ہے۔ جہاں منظّم قومی سیاسی پارٹیاں ایسے امیدوار کا انتخاب کریں جو ان کے کارکنوں کا انتخاب ہوں۔ ایسی پارلیمنٹ خود مستحکم ہوگی، ملک کو بھی مستحکم کرے گی۔ دوسرے ادارے بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کریں گے۔
دل سے جو قوم کی خدمت میں لگے ہیں دن راتایسے خدّام کے ناموں کا پتہ چلتا ہے کام ہوتے نظر آئیں کہ نہیں، البتہ...
صدر ڈولڈ ٹرمپ کے موجودہ عہدِ صدارت کا جائزہ لینے کیلئے بیسویں صدی کے دو مشہور سیاسی مفکرین کے نظریات کو...
15جنوری 1970ء کی ٹھٹھرتی ہوئی صبح کو مجھے اور مسعود کو امریکہ کےلئے روانہ ہونا تھا۔ میں نے اور مسعود نے سفر کے...
پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی طویل اور تکلیف دہ تاریخ رکھتا ہے ۔ سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کود پڑنے سے...
ریاست ہائے عالم اور ان میں بسنے والی اقوام کی ترقی و خوشحالی، اتحاد و استحکام اور امن و تحفظ کا انحصار ایٹ...
محترم شامی صاحب اور جناب سہیل وڑائچ صاحب کے ہمراہ گزشتہ روزمقامی ہوٹل میں سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود...
ہندوستان تقسیم ہوا تو اسکے چار بنیادی آئینی اصول تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے مطابق مذعومہ نوآزاد...
تضادستان جب سے بنا ہے اس میں یا تو افسر شاہی سیاست کرتی رہی ہے یا پھر خود افسر شاہی سے سیاست ہوتی رہی ہے۔ یہ ملک...