سپریم کورٹ، حکومتوں سے پولیس میں تقرر و تبادلوں کا8 سالہ ریکارڈ طلب

24 نومبر ، 2022

اسلام آباد(جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے سیاسی بنیادوں پر پولیس افسران کے تبادلے وتقرریوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران وفاقی اورچاروں صوبائی حکومتوں سے گزشتہ آٹھ سال میں محکمہ پولیس میں کی جانیوالی تقرریوں اور تبادلوں کا ریکارڈ طلب کرلیاہے جبکہ چیف سیکریٹری پنجاب کامران افضل کو جبری رخصت پر بھیجنے کیخلاف دائر کی گئی درخواست کو بھی اسی مقدمہ کیساتھ یکجا کردیاہے، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربرا ہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ محکمہ پولیس پنجاب میں سیاسی مداخلت پر افسران کے تبادلے ہوتے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ڈی پی او لیہ کا تبادلہ بھی سیاسی مداخلت پر ہواہے جس کی خبریں میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی ہیں محکمہ پولیس نے مزاحمت کی ہے لیکن بالآخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیاہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے تسلسل کیساتھ تبادلوں سے کار کردگی متاثر ہو رہی ہے،ڈی پی او لیہ کے تبادلہ سے متعلق ہیڈ لائنز نہیں دیکھی ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں دیئے گئے ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے جبکہ چار سال میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے کئے گئے ہیں، وکیل نے کہا پنجاب میں آئی جی پولیس کی اوسط ٹرم 6 ماہ ہے جو قانون کے مطابق تین سال ہونی چاہئے،عدالت نے کہا پولیس افسران کے بلا کسی وجہ تبادلوں سے کریمنل جسٹس سسٹم کی کارکردگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، ان حالات میں افسران میں سیاسی اثرو رسوخ سے اعلی عہدے حاصل کرنے کا رحجان بڑھتا ہے،بعد ازاں عدالت نے چاروں صوبائی اوروفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوے کیس کی مزید سماعت پندرہ روز کیلئے ملتوی کردی، اسی بنچ نے چیف سیکرٹری پنجاب کامران افضل کو جبری رخصت پر بھیجنے کیخلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی تودرخواست گزار کے وکیل حارث عظمت نے موقف اختیار کیا کہ اس مقدمہ میں قانونی نکتہ شامل ہے کہ قواعد کے مطابق چیف سیکرٹری کی مدت تعیناتی چار سال ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے ، سماعت کے دوران وکلاء سے اس نقطہ پر معاونت طلب کی جائیگی کہ اگر صوبائی افسر ان عہدوں پر تعینات ہو تو پھر بھی کیا وفاق کا کیا کوئی کردار ہوتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ عدالت کس حد تک انتظامی معاملات میں مداخلت کر سکتی ہے،بعد ازاں بعدعدالت نے مذکورہ بالا حکم کیساتھ اس کیس کی مزید سماعت بھی پندرہ روز کیلئے ملتوی کردی۔