صدر آرمی چیف کی تقرری کی ایڈوائس واپس بھیج سکتے ہیں،شعیب شاہین

24 نومبر ، 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے کہا ہے کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48کے تحت آرمی چیف کی تقرری کی وزیراعظم کی ایڈوائس واپس بھیج سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ صدر اس میں تاخیر کرسکتے ہیں مگر انہیں وزیراعظم کی ایڈوائس ماننا ہی پڑے گی۔ ان خیالا ت کا اظہار جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا۔خرم دستگیر خان کا کہنا تھاکہ صدر مملکت قانونی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان سے مشاورت نہیں کرسکتے ،آرمی چیف وہی بنیں گے جن کی ایڈوائس وزیراعظم کریں گے، پاکستان میں صدارتی نظام آمریت کا کوڈ ورڈ ہے، جنرل باجوہ اور عمران خان دونوں اپنی قیاس آرائیاں کررہے ہیں، دونوں حضرات کو کہنا چاہئے کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ 2018ء کا الیکشن ہر لحاظ سے صاف و شفاف اور غیرآئینی مداخلت سے پاک ہوگا،نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ادارے کو آئینی حدود میں رکھنا اور دوسرے اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کا سگنل دینا ہوگا۔شعیب شاہین نے کہا کہ وزیراعظم نئے آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو نامزد کرتے ہیں تو یہ غیرآئینی و غیرقانونی ہوگا، یہ اس لئے غلط ہوگا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن جس دن موثر ہوگا اس دن ان کا جاب میں رہنا ضروری ہے، جنرل باجوہ نے پچھلے سال فروری تک سیاست میں فوج کی مداخلت قبول کرلی ہے، پچھلے سات آٹھ مہینے کا کنڈکٹ دیکھیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست میں مداخلت ختم ہوگئی ہے، نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہوگا،فوج جس دن حقیقی طور پر غیرسیاسی ہوجائے گی ملک میں سکون آجائے گا۔وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان نے کہا کہ صدر مملکت قانونی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان سے مشاورت نہیں کرسکتے ، عمران خان کی بات انتہائی لغو ہے کہ صدر آرمی چیف کی تقرری پر ان سے مشورہ کریں گے، وزیراعظم آرمی چیف کی تعیناتی کا جو فیصلہ کریں گے صدر آئین کے تحت اسے ماننے کے پابند ہیں، صدر وزیراعظم کے فیصلے کی منظوری دینے میں تاخیر کرسکتے ہیں لیکن انکار نہیں کرسکتے، صدر مملکت نے فیصلہ کرنا ہے کیا وہ گورنر پنجاب والی تلخ تاریخ دہرائیں گے، صدر مملکت کا گورنر خیبرپختونخوا کی تقرری پر فوراً ایڈوائس ماننا اچھی بات ہے۔ خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت سمری روک کر ملک میں مزید فتنہ فساد پھیلانا چاہتے ہیں تو پھیلادیں، آرمی چیف وہی بنیں گے جن کی ایڈوائس وزیراعظم کریں گے، وزیراعظم اور وزیردفاع کے پاس کسی بھی افسر کو برقرار رکھنے کا اختیار ہے، وزیراعظم نے اگر آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو نامزد کیا اور صدر مملکت نے سمری واپس کردی تو اس کے باوجود کہ عاصم منیر 27نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں وزیراعظم انہیں جاب میں برقرار رکھ سکتے ہیں۔ خرم دستگیر خان نے کہا کہ توقع ہے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ اگلے چند دنوں میں بااحسن طریقے سے حل ہوجائے گا، عدالتوں میں کسی بھی معاملہ کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہے تو ایک دوسرے کو ڈاکو، کافر اور غدار کہنا چھوڑنا ہوگا، سیاسی جماعتوں نے فوج کے سیاست میں کردار پر ہمیشہ تنقید کی مگر عمران خان کی طرح کسی نے فوج کیلئے میرجعفر، میرصادق، غدار اور جانور کے الفاظ استعمال نہیں کیے، سیاستدانوں اور فوج کے ساتھ عدلیہ کو بھی اپنی آئینی حدود کا احترام کرنا ہے، عدلیہ سے بھی ایسے فیصلے آئے جنہوں نے سیاست کو توڑمروڑ کر رکھ دیا۔ خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صدارتی نظام آمریت کا کوڈ ورڈ ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی صدارتی نظام کی بات کی گئی اس کے پیچھے آمرانہ ہوس تھی، عمران خان کا صدارتی نظام کا مطالبہ بھی ان کی آمرانہ ہوس ہے، سپریم کورٹ نے فیض آبا د دھرنا کیس میں احتجاج کے حق کی حدود و قیود متعین کردی ہیں، عمران خان ان حدود و قیود میں رہ کر احتجاج کرتے ہیں بالکل اسلام آباد آئیں، امید ہے حکومت پنجاب یقینی بنائے گی کہ احتجاج کی وجہ سے سڑکیں اور کاروبار بند نہ ہوں۔ خرم دستگیر خان نے کہا کہ آج جنرل باجوہ اور عمران خان دونوں اپنی قیاس آرائیاں کررہے ہیں، دونوں حضرات کو کہنا چاہئے کہ ہم یقینی بنائیں گے کہ 2018ء کا الیکشن ہر لحاظ سے صاف و شفاف اور غیرآئینی مداخلت سے پاک ہوگا، ہمیں پاکستان کے عوام پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں یقین دینا ہوگا کہ حکومتیں ان کی مرضی سے بنیں گی، عمران خان کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ آمدنی توشہ خانہ کے تحائف بیچنے سے ہوئی ہے، پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ادارے کو آئینی حدود میں رکھنا اور دوسرے اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کا سگنل دینا ہوگا، عمران خان سے توقع نہیں کہ وہ رواداری برتیں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین نے کہا کہ صدر کے پاس وزیراعظم کی بھیجی گئی سمری واپس بھیجنے کا آئینی اختیار ہے، آرٹیکل 48کے تحت صدر مملکت 15دن کے اندر وزیراعظم کی ایڈوائس دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرسکتے ہیں، وزیراعظم اور کابینہ سات دن میں اس کا جواب دینے کے پابند ہوتے ہیں، وزیراعظم دوبارہ وہی سمری بھیجتے ہیں اور صدر مملکت چودہ روز تک اس پر سائن نہیں کرتے تو پھر یہ خودبخود منظور ہوجاتی ہے۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نئے آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو نامزد کرتے ہیں تو یہ غیرآئینی و غیرقانونی ہوگا، یہ اس لئے غلط ہوگا کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن جس دن موثر ہوگا اس دن ان کا جاب میں رہنا ضروری ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ نوٹیفکیشن آج جاری ہو لیکن وہ موثر 30تاریخ سے ہورہا ہو، البتہ اگر پہلے ان کی retaintion کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے پھر انہیں آرمی چیف نامزد کیا جاتا ہے تو ایسا ہوسکتا ہے، اسی طرح اگر جنرل باجوہ تین دن پہلے استعفیٰ دیتے ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کرنے کی سمری جاتی ہے تو بھی یہ ممکن ہوگا، آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن جس دن موثر ہوگا اس دن لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جاب میں نہیں ہوئے تو وہ نوٹیفکیشن کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ فوج نے سیاست میں آج تک جتنے تجربات کیے سب ناکام ہوئے، جنرل باجوہ نے پچھلے سال فروری تک سیاست میں فوج کی مداخلت قبول کرلی ہے، اسٹیبلشمنٹ کا پچھلے سات آٹھ مہینے کا کنڈکٹ دیکھیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست میں مداخلت ختم کردی گئی ہے، میں نے رجیم چینج کا پروگرام کیا تو اسی رات ایاز امیر پر تشدد کیا گیا، ایاز امیر کے بقول انہیں اٹھانے والے محکمہ زراعت کے ہی لوگ تھے، اسی طرح عمران ریاض خان نے تقریر کی اگلے دن پکڑا گیا، جنرل خالد نعیم نے تقریر کی اس کی اگلے دن پنشن روک د ی گئی، ہزاروں کی تعداد آفیسرز اور آفیشلز کی پنشن روکی گئی ہے، اعظم سواتی کو ننگا کرکے مارا گیا اس نے جن لوگوں پر الزام لگایا ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی، اسی دن رات کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے انکوائری کے بغیر بے گناہ قرار دیدیا۔شعیب شاہین نے کہا کہ یہاں تو فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا ، آئین اور جمہوریت پر یقین نہیں کیا گیا تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، فوجی آمروں کے ادوار میں ایک طرح صدارتی نظام ہی تھا مگر اس دوران ملک کمزور ہوا، ملک کو آگے لے جانے کیلئے گورننس بہتر کرنے، سیاسی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ڈیفالٹ کا چانس 75فیصد ہوگیا ہے، سیاسی جماعتیں کم از کم اس بات پر اتفاق رائے پیدا کریں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوگا، نئے آرمی چیف کیلئے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہوگا، لوگ آج بھی آرمی چیف کی طرف دیکھتے ہیں، فوج جس دن حقیقی طور پر غیرسیاسی ہوجائے گی ملک میں سکون آجائے گا، سیاستدان ساتھ بیٹھیں گے اور جمہوریت کی طرف پہلا قدم اٹھایا جائے گا۔