آرمی چیف کے بیان کو سیاستدان نکتہ آغاز بناسکتے ہیں، تجزیہ کار

24 نومبر ، 2022

کراچی (ٹی وی رپورٹ) یوم دفاع اور شہدا ءکی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے خطاب پر جیو کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آپس کی لڑائی ہے جنرل باجوہ صاحب کو اس معاملے میں کمنٹ کرنے سے گریز کرناچاہئے تھا،اگر عدلیہ ٹھیک ہوتی تو ماضی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلتیں کبھی نہ ہوتیں، سیاست میں ملوث نہ ہونے کا بڑا چیلنجنگ فیصلہ ہے، آرمی چیف کے بیان کو سیاستدان نکتہ آغاز بناسکتے ہیں، ، خصوصی ٹرانسمیشن میں سینئر تجزیہ کار حامد میر،شاہزیب خانزادہ ،انصار عباسی،منیب فاروق،ارشاد بھٹی اور شہزاد اقبال نے بھی اظہار خیال کیا۔ حامدمیر نے کہا جنرل باجوہ اگر خودہی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پچھلے سال سیاست میں مداخلت نہ کرنے کافیصلہ کیا تو پچھلا الیکشن2018ء میں ایک نہیں بہت ساری سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کی شکایت کی تھیں شواہدموجود ہیں کہ اس الیکشن میں کافی دھاندلی ہوئی تھی ،شاہ زیب خانزادہ نے کہاکہ ایک عام اورمثبت بات ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں ایک ادارے نے فیصلہ کیا ہے پہلے ڈی جی آئی ایس آئی کہہ چکے کہ ایک شخص کافیصلہ نہیں ہے بلکہ ایک ادارے کا فیصلہ ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ جو اگلے آرمی چیف ہیں وہ بھی اس بات کو جاری رکھیں گے۔مگر ا ن کا جوگلہ ہے کہ القابات سے نوازاگیا اورکیا کیا کہا گیاظاہر ہے کہ اس میں جو تنقید ہے وہ اسی پورے سیٹ اپ پربنتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ فوج بالکل سیاست میں کردار ادا نہ کرے مگر کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملک کی جوپوری تاریخ ہے اس میں جوملک کا نقصان ہوا اس عمل کو اور اس مداخلت کو خودآرمی چیف غیرآئینی کہہ رہے ہیں، عمران خان صاحب کوئی بھی مطالبہ منوا نہ پائے توخان صاحب کی فرسٹریشن اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس پہ جھوٹ پہ جھوٹ بولتے چلے گئے ،انصارعباسی نے کہا کہ سب سے پہلے تو آ رمی چیف کاآج کاجوبیان تھا سیاسی امور کے حوالے سے اس کے دو حصے ہیں میری نظر میں ایک تو انہوں نے پچھلے 6-7 ماہ سے عمرا ن خان صاحب کا ڈائریکٹ حملہ تھا اسٹیبلشمنٹ کے اوپر نام لے کریا بغیر نام لئے آرمی چیف جو بھی نشانیا ں ہیں اسٹیبلشمنٹ کے ان کو جس طرح سے عمرا ن خان صاحب حملہ کرتے رہے ہیں جوبھی ان کابیانیہ تھا اس کاجواب دیا یہ آرمی چیف کا بڑا چیلنجنگ فیصلہ ہے کیا ایسے ہی ہوگاکیاہماری خوش فہمی ہے یہاں پہ نئے آرمی چیف آتے ہیں ،اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیز بدل جاتی ہیں سب کچھ بدقسمتی سے75 سال سے ہم نے بار بار یہی چیزیں ہوتی دیکھی ہیں ۔میری نظرمیں2018ء کے الیکشن وہ بالکل انجینئرڈ تھے ، شہزاد اقبال نے کہا جنرل کیانی کے دور میں ایسا لگ رہا تھا کہ فوج سیاست سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن وہ ایک ٹیکٹیکل موو تھا اس کے بعد ملک میں ہائبرڈ نظام لانے کے فوج کے اسٹریٹجک ایجنڈے پر بہت محنت کی گئی، آج بھی یہی سوال ہے کہ آرمی چیف کا فوج کے سیاست سے پیچھے ہٹنے کا بیان ٹیکیٹکل موو ہے یا اسٹریٹجک موو ہے ۔