ریکوڈک کیس،پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری بڑا چیلنج ،سپریم کورٹ

24 نومبر ، 2022

اسلام آباد(جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ میںʼʼ ریکوڈک کے جوائنٹ وینچر کے نئے معاہدہ ʼʼسے متعلق ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نظام انصاف میں بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، نتائج کچھ وقت کے بعد ہی نظر آئیں گے۔پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے،غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہیے، چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال کی سربرا ہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز ریفرنس کی سماعت کی تو بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ریکوڈک منصوبے سے مال جیسے ہی پورٹ پر پہنچے گا پچاسی فیصد ادائیگی ہوجائے گی، ریکوڈک منصوبے کے مال کی بقیہ پندرہ فیصد ادائیگی منزل پر پہنچ کر مارکیٹ ریٹ اور کوالٹی کے مطابق ہوگی،اگر ریکوڈک منصوبے سے کاپر اور سونے کے علاوہ کوئی معدنیات نکلی تو اس کا طریقہ کار بھی معاہدے میں درج ہے، اگر ریکوڈک منصوبے سے کوئی نایاب معدنیات نکلی تو حکومت مارکیٹ ریٹ پر خرید لے گی، ریکوڈک سے سونے اور تانبے کے علاوہ کوئی اور دھات نہیں نکلے گی، لیکن اگر ریکوڈک سے یورینیم اور پلاٹینیم جیسی اسٹرٹیجک دھاتیں نکلیں تو پاکستان کو بلامعاوضہ ملیں گی، اس منصوبے کیلئے اگر زمین حاصل کی گئی تو ادائیگی کمپنی کرے گی جبکہ حکومت اسے صرف سہولت فراہم کرے گی،انہوں نے بتایا کہ مرکزی شاہراہوں کی تعمیر اور مرمت حکومت جبکہ نوکنڈی سے پراجیکٹ تک سڑک کی تعمیر کمپنی کے ذمے ہوگی، بیرک گولڈ کمپنی فزیبلٹی اسٹڈیز پر 240ملین ڈالرز خرچ کریگی،مجوزہ شاہراہیں صرف پراجیکٹ والے ہی نہیں ؟ عام عوام بھی استعمال کرسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ بارڈر، صوبے اور ضلع میں سیکیورٹی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوگی جبکہ پراجیکٹ کے اندر سیکیورٹی کمپنی کے ذمے ہوگی،بیرک گولڈ کمپنی ریکوڈک سے گوادر 680کلومیٹر طویل زیرِ زمین پائپ لائن بچھائے گی، بندرگاہ پہنچنے پر دھاتوں کوپانی سے الگ کر کے بیرونِ ملک ریفائن ہونے کیلئے بھیج دیا جائیگا، انہوں نے کہاکہ منصوبے کی کنسٹرکشن کا ایک فیصد جبکہ سالانہ آمدن کا 0.4 فیصد سماجی شراکت داری پر خرچ ہوگا،ریکوڈک منصوبے کی تعمیر پر 7500 جبکہ آپریشنز پر 4000نوکریاں ملیں گی، کمپنی ریکوڈک منصوبے کو مکمل شفاف اور قانون کے مطابق کرنا چاہتی ہے، اگر حکومت کوئی رعایت ختم کرتی ہے تو وہ خفیہ نہیں بلکہ پبلک نوٹس کے ذریعے کھلے عام فیصلہ کرے گی، جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ریکوڈک منصوبے میں پچاس فیصد شیئرز پاکستان کے ہیں کسی تنازعہ سے پاکستان کو بھی اثر پڑے گا۔چیف جسٹس نے کہا حکومت پاکستان جو کرے وہ بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھ کر کرے ورنہ کمپنی پھر عالمی ثالثی فورم پر چلی جائے گی، پاکستان کے عدالتی نظام اور عالمی نظام انصاف میں بہت فرق ہے، فاضل وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیشتر ممالک نے سرمایہ کاروں کے تنازعات ختم کرنے کیلئے وزارت خارجہ میں قانونی مشیر مقرر کر رکھے ہیں، اس معاہدے میں بھی کسی قانونی سقم سے بچنے کیلئے شفافیت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، معاہدے میں پاکستانی حکومت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا،اگر حکومت یا پارلیمنٹ معاہدے میں غیر ملکی کمپنی کودی گئی رعایت واپس لینا چاہے تو اسے پبلک کیا جائے گا،یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک سیکشن افسر نوٹیفکیشن نکال کر دی گئی رعایت واپس لے لے ، تاہم رعایت واپس لینے پر غیر ملکی کمپنی بین لاقوامی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھے گی، انہوں نے کہاکہ ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات کی ایکسپورٹ پر حکومت پاکستان کی مسلسل نگرانی ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ جب تنازعات عالمی فورم پر پہنچ جائیں تو حل کرنے میں بہت وسائل خرچ ہوتے ہیں، دوران سماعت بیرک گولڈ کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس کے دوسرے سوال پر ا پنے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ریفرنس میں دوسرا سوال فارن انوسٹمنٹ بل 2022 کے بنیادی حقوق کے متصادم ہونے سے متعلق ہے، آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت وفاق کے تشکیل دیے گئے قانون میں صوبے ترمیم کر سکتے ہیں، ریکوڈک معاہدے کے لئے قانون سازی کا مقصد بیرون ملک سے بھاری سرمایہ کاری کو یقینی بنانا ہے، جسٹس یحی ٰخان آفریدی نے کہا کہ حکومت عدالت سے مجوزہ قانون سازی کی توثیق کیوں چاہتی ہے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تاکہ عدالت رہنمائی کرے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس فارن انویسٹمنٹ کے تحفظ کی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سرمایہ کاری سے جڑے تنازعات کو عدالتوں میں کیوں لاتے ہیں؟ سرمایہ کاری سے جڑے تمام تنازعات عدالت سے باہر حل کرنے کا طریقہ کار بنائیں، پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ کاروبار کی دستاویزات نہ ہونا ہے، اگر فارن انویسٹمنٹ کی کوئی حد مقرر نہ ہوئی تو مجوزہ قانون سازی سے نیا پنڈورا باکس کھل جائیگا، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 24 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔