رواں سال پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 4503 ، خواتین کے 3088 واقعات

30 نومبر ، 2022

اسلام آباد ( عا طف شیرازی )رواں سال کے پہلے 10 مہینوں میں پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 4503 کیسز، خواتین سے زیادتی کے 3088 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ بچوں سے زیادتی کے 27 فیصد واقعات صرف لاہور میں ہوئے۔ ایس ایس ڈی او نے پنجاب میں خواتین اور بچوں کیخلاف زیادتی کے واقعات پر رپورٹ سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ( ایس ایس ڈی او) اور سینٹر فار ریسرچ، ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن (سی آر ڈی سی) کی تحقیق کے مطابق رواں سال اکتوبر کی 31 تاریخ تک پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 4503 اور خواتین سے زیادتی کے 3088واقعات ہوئے۔یہ ڈیٹا پنجاب پولیس سے حاصل کیا گیا، جس نے یکم جنوری 2022 سے 31 اکتوبر 2022 تک کے کیسز کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ خواتین اور بچوں کیخلاف تشدد پر نظر ڈالیں تو لاہور اور فیصل آباددونوں میں سب سے زیادہ کیسز کیساتھ سرفہرست رہے، جبکہ زیادتی کے کیسز میں سرگودھا، ملتان اور شیخوپورہ میں زیادہ کیسز سامنے تھے، جبکہ شیخوپورہ، قصور، گوجرانوالہ اور راولپنڈی بچوں سے زیادتی کے کیسز میں آگے رہے، بچوں کیساتھ زیادتی کے 27 فیصد واقعات صرف لاہور میں پیش آئے، ۔ اسی طرح، دوسری طرف، جہلم، چکوال، میانوالی، نارووال اور خوشاب جیسے اضلاع خواتین اور بچوں کیخلاف سب سے کم تشدد کے واقعات میں شامل ہیں۔ یہ رپورٹ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں لانچ کی گئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، ایس ایس ڈی اوکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا، "اس ڈیٹا کو یکجا کرنے کا مقصد پنجاب میں خواتین اور بچوں کیخلاف تشدد کے بارے میں ضلعی سطح پر موجودہ صورتحال کو پیش کرنا ہے۔ مزید برآں، ہم متعلقہ پالیسی سازوں اور اسٹیک ہولڈرز کو پالیسی سازی اور جرائم کے ہاٹ اسپاٹ اضلاع کی نشاندہی کرکے متعلقہ قوانین کے نفاذ کے ذریعے خواتین اور بچوں کیخلاف تشدد کو کم کرنے کیلئے اقدامات کے حوالے فراہم کرنا چاہتے ہیں۔" رافعہ کمال، چیئرپرسن ویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے تقریب میں موجود طالب علموں پر زور دیا کہ وہ خواتین اور بچوں کیخلاف تشدد کے واقعات کی پولیس کو فعال طور پر رپورٹ کریں، تاکہ فوری کارروائی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ سکرین پر خواتین کی مثبت تصویر کشی کریں۔ تقریب کی مہمان خصوصی مسرت چیمہ، ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب نے اس بات پر زور دیا کہ کس طرح فیصلہ سازی اور سینئر مینجمنٹ کے کردار میں خواتین کی نمائندگی انتہائی محدود ہے، جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔