آسٹریلیا کا دورہ

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
01 دسمبر ، 2022
میں آسٹریلیا کا پانچ روزہ مکمل کرکے وطن واپسی کیلئے سڈنی سے روانہ ہوچکاہوں اور اب سے کچھ دیر بعد میری فلائیٹ شہرقائد کراچی میں لینڈ کرجائے گی۔ میں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میںامریکہ، کینیڈا، یورپی ممالک سمیت دنیا کے بے شمار ممالک کے دورے کئے ہیں،تاہم حالیہ دورہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں واقع براعظم آسٹریلیا جغرافیائی طور پر تو جنوب میں واقع ہے لیکن ثقافتی طور پر اسے مغربی ممالک کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔موجودہ پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کے پیروکاروں نے سڈنی میںٹیری دربارقائم کیا ہے جسکی افتتاحی تقریب میں مجھے خصوصی طور پر مدعو کیاگیا۔ہندو دھرم آسٹریلیاکا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ قدیم رومن سلطنت کے دور میںسرزمین جنوب کے بارے میں پراسرار لوک داستانیں منسوب تھیں، لوگ یہ جاننے کیلئے متجسس تھے کہ دنیا کے آخری حصے میں کون لوگ بستے ہیں؟لاطینی زبان میں لفظ آسٹریلیئس جنوب کی بستی کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ، آسٹریلیا کا لفظ انگریزی زبان میں پہلی بار 17ویں صدی میں منظرعام پر آیا۔ سرزمین آسٹریلیا میں انسانی آبادکاری کے شواہد 48ہزار سال سے بھی پہلے کے ملتے ہیں، آسٹر یلیا کو دریافت کرنے کیلئے 17ویں صدی کے آغاز میں یورپی ملک ہالینڈ کا جہاز راں ولیم جانسزون یہاں لنگرانداز ہوا، بعد ازاں ہالینڈ کے باشندوں نے آسٹریلیا کے مغربی اورشمالی ساحلی علاقوں کے نقشے بنائے اورعلاقے کو نیو ہالینڈ کا نام دے دیا ، اسی طرح برطانوی کیپٹن جیمز کْک نے مشرقی ساحل کا نقشہ بناکر علاقے کو نیو ساؤتھ ویلز کا نام دیا اور پھر برطانوی سامراج نے یہاں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے، مغربی اقوام کی آمد کے بعد آسٹریلیا کی تاریخ کا ایک تاریک پہلو مقامی باشندوں کی وسیع پیمانے پر بے دریغ نسل کشی ہے،آج بھی سرزمین آسٹریلیاکے جنگلوں میں آگ لگتی ہے یا یہاں کوئی قدرتی آفت آتی ہےتودردمند لوگ اسے ماضی میں اصلی قدیمی باشندوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے بہیمانہ ظلم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔تاریخی طور پر برطانیہ نے18ویں صدی میں آسٹریلیا کے مشرقی نصف حصہ پرقبضہ کرتے ہوئے نیو ساؤتھ ویلز کی کالونی بنادیا،سرزمین آسٹریلیا میں نت نئے علاقوں کی دریافت برطانوی کالونیوںمیں اضافے کا باعث بنتی گئی اور یہاں 19ویں صدی تک مزید پانچ کالونیاں قائم ہوگئیں، تاہم یکم جنوری1901ء کو ان چھ کالونیوں نے باہمی طور پر ایک فیڈریشن بناتے ہوئے دولت مشترکہ آسٹریلیا کے قیام کا اعلان کردیا، فیڈریشن کے نفاذ سے آج تک آسٹریلیا میں جمہوری سیاسی نظام قائم ہے اور برطانوی پرچم آسٹریلیا کے قومی جھنڈے کاحصہ ہے۔آئینی طور پر دولت مشترکہ آسٹریلیا کی سربراہی ایک طویل عرصے تک ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کے پاس رہی جو ان کے انتقال کے بعد برطانوی بادشاہ کے پاس آگئی ہے، یہاں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے اوروفاقی سطح پر برطانوی بادشاہ کی نمائندگی گورنر جنرل کرتا ہے جو وسیع اختیارات کا حامل ہوتا ہے،تاہم اختیارات کااستعمال وزیر اعظم کے مشورے سے کیا جاتا ہے۔آسٹریلیا کا قومی جانور کنگرو ہے جو صرف آسٹریلیا کے علاقوں میں ہی پایا جاتا ہے،جنگلی حیات کے ماہرین نے کنگرو کے ڈیڑھ کروڑ سال قبل کی باقیات دریافت کی ہیں، کہا جاتا ہے کہ مشہور برطانوی جہاز راں کیپٹن کک نے جب یہ عجیب و غریب جانور دیکھا تو ایک مقامی باشندے سے اشاروں میں اسکا نام دریافت کیا، جواب میں اس نے کنگرو کہا جسکا مطلب قدیمی آسٹریلوی زبان میں ’میں نہیں جانتا‘تھا لیکن کیپٹن کک نے مقامی زبان سے لاعلمی کے باعث اسے جانور کا نام سمجھا۔آج کا آسٹریلیا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جسکی معیشت مستحکم اورلوگ خوشحال ہیں،آسٹریلیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن
اور امیگریشن حاصل کرنے کی خواہش پاکستان، بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے،آسٹریلیا کی سرکاری زبان انگریزی ہے ،تاہم تارکین وطن کی بڑی تعداد کے باعث اردو،ہندی، چائنیز اور دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، یہاں6 سے 15 سال تک کے بچوں کیلئے اسکول جانا لازمی ہے جسکے باعث آسٹریلیا کی شرح خواندگی 99 فیصد ہے، یہاں کی یونیوسٹیوں میں زیرتعلیم اسٹوڈنٹس میں پاکستانی طلبا ء و طالبات کی بھی بڑی تعداد ہے۔ سرکاری سطح پرپاکستان اور آسٹریلیا کے مابین خوشگوار تعلقات قائم ہیں، دونوں ممالک کو قریب لانے میں کرکٹ کا بہت بڑا کردار ہے،کرکٹ کے میدان میں پاکستانی کھلاڑیوں کی مقبولیت آسٹریلیا میں بہت زیادہ ہے جسکی ایک مثال سابق پاکستانی کرکٹروسیم اکرم کی آسٹریلوی خاتون شنیراسے شادی ہے تو دوسری مثال حال ہی میں دِل دِل پاکستان نغمے کی آسٹریلوی عوام میں وسیع پذیرائی ہے۔ تاہم دیگر غیرملکی دوروں کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے یہی شکوہ سامنے آیا کہ پڑوسی ملک کے شہری اپنی حکومت کی فعال پالیسیوں کے باعث ہر جگہ چھاتے چلے جارہے ہیں، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کی رائے کو مقدم رکھے اور قومی ترقی و خوشحالی کے ہدف کے حصول کیلئے آسٹریلیا جیسے ممالک سے قریبی تعلقات کے فروغ کواپنی ترجیح بنائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)