ملکی سلامتی کے تقاضے !

اداریہ
14 جنوری ، 2022

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سیکرٹریٹ میں افغان صورتحال کے تناظر میں قومی سلامتی اور خطے کی کیفیت پر جو تفصیلی تبادلہ خیال کیا، اسے مبصرین وسیع تر تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ وسطی ایشیا سے آنے والی خبریں، مشرقِ وسطیٰ کی پیش رفتیں اور بھارت میں عام انتخابات سے پہلے ہونے والی بعض سرگرمیاں اور ’’ممکنہ ڈرامے‘‘ بھی تجزیہ کاروں کی نظر میں ہیں۔ ISIپاکستان کا وہ خفیہ ادارہ ہے، وطن عزیز کی بقا و سلامتی کے لیے دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے جس کا کردار قابلِ فخر ہے۔ مذکورہ ادارے کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا بڑا ثبوت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کی بےمثال کامیابی ہے۔ یہ ایسی جنگ تھی جس پر بیرونِ ملک سے آنے والے بعض تبصروں اور تجزیوں سے پاکستان دشمن عناصر کے اِس یقین کا اظہار سامنے آتا تھا کہ وہ اس ملک کو لاچار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی اداروں نے ہم آہنگی سے اس بےچہرہ جنگ کے کرداروں کو بےنقاب اور ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ وزیراعظم عمران خان کی بدھ کے روز آئی ایس آئی سیکرٹریٹ میں وفاقی وزراء اور آرمی چیف کے ہمراہ آمد کو ایجنسی کے نئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے منصب سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ کہا جا سکتا ہے۔ اس دورے کی تفصیلات سے ان عناصر کو یقیناً مایوسی ہوئی ہوگی جو ہائبرڈ وار کے ہتھکنڈے کے طور پر پاکستان کے اداروں اور اہم حلقوں کے بارے میں من چاہی قیاس آرائیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کے مذکورہ دورے سے ایک روز قبل راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں داخلی سیکورٹی صورتحال، سرحدی امور، آپریشن ردّالفساد کی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔ مری اور بلوچستان میں قدرتی آفات میں پھنسے متاثرین کی مدد اور پاک فوج کے ریلیف آپریشن کو سراہا گیا اور فارمیشنز کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے مذکورہ دورے کو اس اعتبار سے بھی مبصرین خصوصی اہمیت دے رہے ہیں کہ ملک کی طاقتور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کچھ ہی عرصے قبل خارجہ، دفاع اور اقتصادی امور سے متعلق حکمت عملی کی تیاری اور فیصلہ سازی میں حکومت کی رہنمائی کیلئے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے چکی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کا کام 2014میں اس وقت کی حکومت نے شروع کیا تھا جسے سات سال بعد مکمل کیا جا سکا ہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق این ایس پی ایک امبریلا دستاویز ہے جو ملک کے مستقبل کی سمت کے بارے میں آگاہی دے گی۔قومی سلامتی ڈویژن نے پچھلے سات برسوں کے دوران اس پالیسی پر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ چونکہ پالیسی کلاسیفائیڈ ہے اس لئے پوری پالیسی کے صرف 150صفحات منظر عام پر لائے جا سکیں گے جن میں سے بعض باتیں اعلامیے، مشیر سلامتی کے بیان اور ذرائع کے حوالے سے سامنے آچکی ہیں جبکہ پالیسی کا پبلک ورژن آج (14جنوری2022کو) سامنے آنے کی توقع ہے۔ معاشی، عسکری اور انسانی سیکورٹی کے تین بنیادی نکات پر مشتمل پالیسی پر سالانہ بنیادوں پر نظرثانی کی جا سکے گی۔ اس میں پیش کی گئی سلامتی کی جامع تعریف شہریوں کے لئے مرکزی اہمیت رکھتی ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری اجاگر کی گئی ہے کہ وہ کمزور شہریوں کو بااختیار بنائے۔ ملکی سلامتی کا اہم تقاضا بھی یہی ہے کہ ریاست اپنے تمام شہریوں، بالخصوص پسے ہوئے طبقات کے حقوق کا تحفظ کرے اور ان کی معاشی و سماجی ضروریات کو کسی طور نظرانداز نہ کرے۔