دکھ قطار باندھے کھڑے ہیں

رضا علی عابدی
14 جنوری ، 2022
دوسرا رخ…رضا علی عابدی
میری چہیتی بھتیجی عمرانہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہتی ہے۔ وہ میرے کسی کام میں دخل نہیں دیتی۔ صرف ایک معاملے میں ایک ہی اصرار ہے۔ ہفتہ وار کالم کا موضوع چننے میں اس کی رائے شامل ہونی چاہیےاور رائے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ دِ ل دکھانے والے موضوع پر نہیں لکھیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ ہر دروازے، ہر کھڑکی، ہر روشن دان سے دکھ دینے والی خبریں چلی آرہی ہیں۔ یوں جیسے ان کا تانتا بندھا ہو۔ دل پہلے ہی بوجھل ہوا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب لکھنے والے ان ہی دکھوں کی بیاض کھول کر بیٹھ جائیں، یہ دل پر، دماغ پر اور سارے ہی احساسات پر ظلم ہے اور سراسر ظلم۔’’بس تاؤ ابّا۔ آپ دل دکھانے والے موضوع پر نہیں لکھیں گے‘‘۔یہ چھوٹا سا معصوم سا حکم صادر کرکے وہ تو چلتی بنی مگر میرے آگے پہاڑ جیسا مسئلہ کھڑا کرگئی۔ لکھنے کے لیے موضوعات میر ے آگے قطار باندھے کھڑے ہیں۔ میں ایک ایک کو دیکھتا جاتا ہوں اور مسترد کرتا جاتا ہوںکیونکہ وہ سارے کے سارے دل دکھانے والے،تکلیف دہ اور اذیّت ناک ہیں۔ یا اﷲ کیسا وقت آن لگا ہے کہ جس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ موضوع ذہن میں کہیں کانٹا بن کر چبھتا ہے یا عمرانہ کے طے کئے ہوئے دستور کے مطابق دل کو دکھاتا ہے۔تو کیا خوش گوار موضوع اٹھ گئے جہاں سے؟
حالاںکہ سیاست کی دنیا میں بے شمار ایسے کام ہو رہے ہیں جن پر ہنسی آتی ہے پر کیا کریں کہ اُن ہی کاموںپر رونا بھی آتا ہے۔کس کا کس سے الحاق ہورہا ہے۔ جی چاہتا ہے دل کو روئیں۔ کون لانگ مارچ کی ٹھان چکا ہے، جی چاہتا ہے جگر کو پیٹیں۔ یہ کون لوگ ہیں جنہیںملک، قوم، ملت، وطن، سرزمین کا ذرا سا بھی پاس نہیں۔ تنگ نظر لوگ خدا جانے کیا چاہتے ہیں۔ یہ ذرا سے بھی وسیع ذہن کے مالک ہوتے تو اپنی ناک سے آگے بھی دیکھنے کے اہل ہوتے۔ ان کو تو میں اپنے کالم کا موضوع نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ دل دکھانے والے نہیں، دل تڑپانے والے عنوا ن ہیں۔
ٹریفک حادثوں میں لوگ بے دریغ مر رہے ہیں۔شادیوں میں پاگل پنے کی فائرنگ سے کتنی ہی جانیں جارہی ہیں۔ پتنگ کی ڈور گلے پر پھر جانے سے لوگ راہ چلتے ذبح ہورہے ہیں۔لوٹ مار، چھینا جھپٹی، ڈاکہ زنی اور راہ زنی روز کا معمول ہے۔ بعض اخبار تو اب ان خبروں کو چھاپتے تک نہیں۔ابھی قیامت خیز بارشیں ہوئیں، کسی نے خبروں پر توجہ نہیں کی، ہر گلی کوچے میں خستہ حال مکانوں کی چھتیں بارش کی شدت برداشت نہ کر سکیں او ر اپنے سائے تلے سوئے ہوئے بچوں اور بڑوں کے اوپر آرہیں۔ لوگ لمحہ بھر میں سڑکوں پر نہیں، اپنے گھروں کے اندرکچل کر مرگئے۔کس کس واقعے سے گریز کروں کس کو منسوخ کروں۔اور جب ہم پر یہ سارے ستم ٹوٹ چکے تو ایک اور ہی قیامت بپھرے ہوئے دیوانے ہاتھی کی طرح اٹھی۔اور وہ جو جنّت نظیر کوہسار ہے کہ جس کا نام ہی مری ہے، وہ مرنے کے سارے اسباب لیے برفانی طوفان بن کر علاقے پر ٹوٹا۔پہاڑوں پر جہاں لاکھوں لوگ جی بہلانے کے خیال سے گئے تھے، اس زور کے منجمد جھکّڑ چلے کہ رگوں میں خون جم گیا، اور وقت نے وہ ستم کیا کہ تفصیل میں جاتے ہوئے بھی جی ڈرتا ہے۔لوگ اپنی کاروں میں ہیٹر چلا کر وہیں سوگئے۔ اس دوران پٹرول یا ڈیزل کا زہریلا دھواں کاروں کے اندر بھر گیا اور سونے والوں کو پتہ بھی نہ چلا کہ وہ کون سا لمحہ اور کون سی گھڑی تھی جب وہ سوتے سوتے مر گئے۔ مری کے نام پر ایک دھبّا لگا۔
ہائے اب کون سمجھائے کہ حالات نے بڑی بھاری اُجرت لے کریہ سبق پڑھایا کہ موٹر گاڑیوں کا دھواں موت کا سبب بن سکتا ہے۔ ہر طرف شور مچا تھا کہ آلودہ دھواں ہماری زمین کی فضا میں زہر گھول رہا ہے۔بڑی قیمت چکا کر ہم نے اس حقیقت کا عملی مظاہرہ دیکھا۔ اب جو ہورہا ہے وہ اس قتل عام سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ کمیٹیاں بن رہی ہیں، کمیشن قائم ہورہے ہیں، تفتیش ہورہی ہے، تحقیقات جاری ہیں۔یہ نہیں دیکھا جارہا کہ 20سے زیادہ افراد کی موت کا اصل سبب کیا تھابلکہ یہ بحث جاری ہے کہ اس سانحے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟نچلے درجے کے معمولی ملازموں کی ٹانگیں کانپ رہی ہوں گی کیونکہ نزلہ ان ہی پر گرے گا۔ ہم نے مری کی پرسکون سڑکیں، گلیاں، پوسٹ آفس کی سیڑھیاں اور مال روڈ کو بار بار دیکھا ہے۔ وہاں سکھ چین کی بنسی بجا کرتی تھی۔ لیکن جب سے مری جیسی شائستہ بستی کو چپلی کباب، کڑاہی گوشت اور بالٹی گوشت کی منڈی بنا دیا گیا ہے، ہمیں تو اب وہ نگر ویران ویران سا لگے ہے۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ جب ہم پر سارے دکھ عیاں ہو چکے اور ہم اپنے دفتر نما گھر میں بیٹھے یہ سب کچھ لکھے جارہے تھے اور جی میں ٹھان رہے تھے کہ مزید دکھ نہیں لکھیں گے، ہمارے کمپیوٹر کی اسکرین پر حرکت ہوئی۔ رحیم یار خان کے علاقہ خان بیلا سے ایک دکھیاری کا پیغام آرہا تھا۔ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی بیوی ہے جو نشے کا عادی ہے اور ستم رسیدہ بیوی اُس کے چار یتیم بھائی بہنوں اور اپنے چار، کُل ملاکر آٹھ بچوں کو سنبھالے ہوئے ہے،اپنی بچی کو املا بول کر لکھوا رہی تھی۔ اس کے الفاظ یہ تھے: میں کیا کروں، اب مجھ سے گھر نہیں چل رہا۔ آپ ترس کھاکر جو دس ہزار روپے بھیجتے ہیں وہ بارہ دن بھی نہیں چلتے۔میرا دل کرتا ہے بچوں کے ساتھ زہر کھالوں۔
یہ معاملہ سنگین ہے۔ یہ کوئی بھبکی نہیں، سکھر بیراج سے ایک ماں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ چھلانگ لگا چکی ہےاو ر نہ جانے کتنی بے بس اور لاچار مائیں ایسے ہی ارادے باندھ رہی ہوں گی۔ہوتا یہی ہے کہ جب تک سو پچاس موت کے گھاٹ نہ اتر جائیں، کسی پر اثر نہیں ہوتا۔ اس پر ایک بار پھر مری کے برفانی طوفان کا سانحہ یاد آیا۔جو سینکڑوں لوگ اپنی کاروں میں بند بیٹھے تھے۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزر رہے تھے، ہمارے صحافی دوست قیصر عباس بھی اپنی بچی اور اہلیہ کے ساتھ کار میں صبر کئے بیٹھے تھے اور خبریں آنے لگی تھیں کہ کاروں میں بند لوگ دم گھٹنے سے مر رہے ہیں۔ پھر خبر آئی کہ سترہ افراد جان سے جا چکے ہیں۔ تب دیکھا کہ ہمارے فوجی گرم چائے لے کر آرہے ہیں۔ قیصر عباس نے ان سے کہا کہ سترہ افراد مرے تو آپ آئے۔ اس شخص نے جواب دیا:جی۔ سترہ نہ مرے ہوتے تو اور چالیس گھنٹے تک کوئی نہ آتا۔
عمرانہ۔ فکر نہ کرو۔ اِن میں سے کسی موضوع پر نہیں لکھوں گا۔