سندھ کا مقدمہ

مظہر برلاس
14 جنوری ، 2022
چہرہ…مظہر برلاس
(گزشتہ سے پیوستہ )
بھٹو کے عہد میں جی ایم سید کی گرفتاری کے بعد سندھ میں طاقت کے ذریعے اُن کے حامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنمائوں میں اسلحہ تقسیم کروایا تاکہ سندھ کے جن کالجوں میں جئے سندھ اسٹوڈنٹس کی طاقت ہے، اسے کچلا جا سکے۔ اس کے بعد اسلحے کا یہ زور لیاقت میڈیکل کالج، سندھ یونیورسٹی اور مہران انجینئرنگ کالج میں بھی نظر آیا۔ اس دوران ڈگری کالج لاڑکانہ کے پرنسپل کا قتل ہوا۔اس سارے کھیل کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ عام سندھیوں کو کچل کر رکھ دیا جائے تاکہ وہ کبھی جئے سندھ کا نعرہ بلندنہ کریں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ بھٹو 70 میں غریبوں سے ووٹ لیکر آیا مگر اقتدار میں آکر اس کی سوچ اپنے طبقے یعنی جاگیرداروں کے لیے سرگرم ہوگئی۔ اس نے خاص طور پر سندھ کے جاگیر داروں، وڈیروں اور پیروں کو ڈرایا دھمکایا کہ تم اگرمیرے ساتھ نہ ملے تو یہ غریب تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ جب وہ شامل ہوگئے تو جہاں عام سندھیوں کو جانا تھا وہاں وڈیروں کے بیٹے بھتیجے پہنچ گئے، عام سندھی اعلیٰ نوکریوں سے پھر محروم رہ گئے کیونکہ بڑے خاندانوں کے چشم وچراغ بڑی بڑی نوکریوں پر براجمان ہو گئے یا پھر وہ لوگ آ گئے جو مقاصد پورے کرتے تھے۔مثلاً ایک ان پڑھ اور انگوٹھا چھاپ آدمی مسٹر پنجل تھا، اس آدمی کو ایس پی لگا دیا گیا اس پنجل کے ذریعے بہت سے لوگوں کو مروایا گیا۔جب ضیاالحق آیا تو اس نے پنجل کو برطرف کر دیا پھر جب بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو پنجل کو بحال کیا گیا۔تمام فوائد دیئے گئے اور پھر وہ بطور ڈی آئی جی ریٹائرڈ ہوا ۔یوںسندھ میں ایک ان پڑھ آدمی بطور ڈی آئی جی ریٹائرڈ ہوا۔
بھٹو سے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ایک بڑی غلطی ہوئی جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ غلطی تھی نیشنلائز کرنا، نیشنلائزیشن کی اس پالیسی نے سرمایہ کار کو بھگا دیا، وہ تب سے بھاگا ہوا ہے، ابھی تک واپس نہیں لوٹا، بھٹو نے ایک اور فیصلہ بھی غلط کیا اس نے سرکاری اداروں میں یونینز کو بحال کیا۔ اس اقدام سے پاکستان کے تمام نفع دینے والے ادارے خسارے میں چلے گئے۔ آج ہم ریلوے، پی آئی اے، واپڈا، ریڈیو اور پی ٹی وی سمیت کئی اداروں کو روتے ہیں۔بہت سے ادارے تھے جو بعد میں آنے والی حکومتوں نے بیچ دیئے یا انہیں کوئی کھا گیا یا پھر وہ خسارے کا شکار ہو گئے۔ بھٹو تو غریبوں سے دور ہو گیا مگر غریب بھٹو سے دور نہ ہوئے، انہوں نے اپنی آسوں امیدوں کا مرکز و محور بھٹو ہی کو جانا۔ حالانکہ بھٹو نے سیاست میں آنے کی کچھ لوگوں کو سزا بھی دی مثلاً پنجاب سے ملک محمد سلیمان اور مختار رانا اس کی مثالیں ہیں، انتقامی کارروائیوں کی بات کی جائے تو پھر مولانا جان محمد عباسی کی مثال بڑی واضح ہے۔ بھٹو کے عہد میں کئی صحافیوں کو بھی انتقاماً جیلوں میں ڈالا گیا۔آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداریبھی بھٹو کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنے، انہیں بلوچوں کو کمبل اور کپڑے بھجوانے بڑے مہنگے پڑے۔بڑی عجیب بات ہے کہ لوگوں نے بھٹو سے بہت محبت کی پنجاب کے لوگوں نے بھٹو سے عشق کیا۔بھٹو کی روح آج بھی سوچ رہی ہو گی کہ اس کی موت پر خودسوزیاں کرنے والوں میں کوئی جاگیردار نہ تھا سارےغریب ہی تھے۔ بھٹو کے لیے لاہور کا طوطی جان پر کھیل گیا کئی طوطی موت کی وادی میں چلے گئے مگر کوئی نواب یا جاگیردار نہیں گیا بلکہ جاگیرداروں کوگلے لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارشل لا لگنے کے بعد بھٹو کی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے چالیس اراکین میں سے اکثریت بھٹو کو چھوڑ گئی، پیپلز پارٹی کی یہ ایک دردناک کہانی ہے کہ اس کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بھی اس کے ساتھ کھڑی نہ رہ سکی۔
جی ایم سید کی بات سچ ثابت ہوئی، اسٹیبلشمنٹ نے طاقتور ہوتے ہی بھٹو سے نہ صرف اقتدار چھینا بلکہ اس کی زندگی بھی چھین لی۔ ضیاالحق آیا تو سندھیوں پر اور آفت آ گئی، سندھ دھرتی کے لوگ بھی پتہ نہیں کب سے آفتوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں نے ظلم کئے پاکستان بنا تو ابتدائی حکمران اور ابتدائی بیوروکریسی نے ظلم کی ساری کسریں نکالیں۔ون یونٹ آیا تو ظلم کا ایک او ر رخ سامنے آیا، بھٹو نے ووٹ غریب سے لیا اور سہولتیں جاگیرداروں کو دیں، اب جبکہ ضیا الحق آیا تو اس نے سندھیوں کو اپنا دشمن سمجھا اور وہی سلوک شروع کیا جو دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ خیر اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ سندھ کے عوام نے بھی کبھی ضیاالحق کو تسلیم نہیں کیا وہ اگر کبھی سندھ گیا بھی تو اس کا استقبال انڈوں اور ٹماٹروں ہی سے کیا گیا۔
بھٹو سے محبت کرنے والوں میں جی ایم سید، رسول بخش پلیجواور معراج محمد خان کے علاوہ پوری این ایس ایف تھی مگر یہ رومانس وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوا۔ معراج محمد خان کافی عرصہ وابستہ بھی رہے مگر پھر مزدور کسان پارٹی بنا کر جدوجہد کرنے لگے، معراج محمد خان تحریک انصاف میں بھی شامل ہوئے تھے۔ خیر ابھی ضیاالحق کے دور کی بات کرتے ہیں، ضیاالحق کے دور میں سندھ کے اندر ڈاکو راج کو پروموٹ کیا گیا تاکہ سندھیوں کو بدنام کیا جا سکے۔ تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ تھی کہ وہاں ایسے لوگوں کو سربراہ بنایا گیا جو تعلیم دشمن، چاپلوس اور حرام خور تھے چونکہ ضیاالحق اور اس کے حواریوں کا مقصد تھا کہ سندھی نوجوانوں کا مستقبل تاریک کیا جائے۔ اس لیے جہاں کہیں بھی آواز بلند ہوتی امن و امان کا بہانہ بنا کر تعلیمی ادارے کو بند کر دیا جاتا۔اس دوران شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور میں دو نوجوان قتل بھی ہوئے۔ 1983میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی، حالات خراب ہوئے تو ضیاالحق نے 1984 میں سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگا دی کیونکہ ضیاالحق کے نزدیک ایم آر ڈی کی تحریک کو ایندھن طلبا ہی فراہم کرتے تھے۔
(جاری ہے )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)