ہم بدقسمت قوم ہیں!

عطاء الحق قاسمی
14 جنوری ، 2022
روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی
براہِ کرم میرے اِس کالم کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔میں محض دل کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔
اگر میرے اس سوال کا جواب دے دیا جائے کہ پاکستان کے متمول طبقے کو سونے کے کتنے پہاڑ دے دیئے جائیں تو ان کی ہوس زر ختم ہو جائے گی تو میں اس کے بعد اس حوالے سے کبھی کچھ نہیں لکھوں گا۔ ایک انسان کی کم از کم ضرورت ایک چھوٹا سا مکان اور بنیادی ضروریات کا پورا ہونا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ضروریات کے علاوہ آسائشیں آتی ہیں، بس اس سے آگے میری سوچ دھندلا سی جاتی ہے، ان آسائشوں کو جتنا بڑا کرسکتے ہیں کرلیں۔ ایک عالیشان محل نما مکان، مہنگی ترین گاڑیاں، زیورات، کروڑوں، اربوں کا بینک بیلنس، اس کے آگے تو او ر کچھ نہیں؟ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ انسان کی ہوسِ زر ختم ہو جائے بلکہ جو فالتو دولت اس کے لاکروں میں پڑی گہری نیند سو رہی ہے اس میں سے آدھی وہ اپنے پاس رکھ لے اور باقی فلاحی اداروں کو عطیہ کر دی جائے۔ پورا انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس اور اس طرح کے دوسرے ٹیکس ایمانداری سے ادا کرکے ریاست کی معاشی بنیادیں مضبوط کی جائیں جس کے ثمرات بالآخر غریب عوام تک بھی پہنچ سکتے ہیں، مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس ہوس میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
میں یہاں دولت جمع کرنے والوں کو اس حوالے سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات یاد نہیں دلائوں گا کہ اس کے بے نتیجہ ہونے سے ان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ اگر کسی دل میں ضمیر کی تھوڑی بہت خلش بھی موجود ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔ والدین اپنی بگڑی ہوئی اولاد کی کرتوتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ اگر زبان کھولی اور ان کا کہا بے اثر ثابت ہوا تو رہا سہا پردہ بھی درمیان میں سے اٹھ جائے گا اور پھر یہ اولاد سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے کرے گی، جو اس سے پہلے اس حوالے سے پردہ داری کا اہتمام کرتی تھی۔ ریاست بھی اگرچہ والدین ہی کی طرح ہوتی ہے مگر اس کی خاموشی کروڑوں عوام کے حقوق پر کمپرومائز کرنے کے مترادف ہے، چنانچہ ہوسِ زر میں مبتلا طبقے کو نہ قرآن و حدیث کے حوالے دیئے جائیں اور نہ مجبور والدین جیسی خاموشی اختیار کی جائے کہ ریاست مجبور نہیں ہوتی وہ اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے کے لئے سرکشوں کو مجبور کرسکتی ہے۔ کمیونزم کے خوف نے یورپ کے سرمایہ داروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا چنانچہ وہ پورا جاتے دیکھ کر آدھا دینے پر راضی ہوگئے تھے اور یوں یورپ میں وہ فلاحی حکومتیں وجود میں آئیں جن کے حوالے دیے جاتے ہیں اور جن کی کشش پاکستانیوں کو ہی نہیں پوری دنیا کے عوام کو ان ملکوں کی شہریت کے حصول کے لئے سرگرداں کیے رکھتی ہے.... تو پھر اب کیا کیا جائے؟ اسلامی نظام؟ جو آج کے بین الاقوامی تناظر میں ڈھالا جا سکے؟ مگر اس نظام کا نعرہ لگانے والے اس کی اجازت نہیں دیں گے اور ان کی اجازت کے بغیر ساری ریاست قدم تو کیا اٹھائے گی لب بھی نہیں کھول سکتی! کمیونزم؟ یہ نظام آزمایا جا چکا ہے، اس کے ثمرات، اپنی جگہ مگر یہ نظام آپ کا پیٹ تو بھر سکتا ہے مگر سوچ پر پابندیاں عائد کرتا ہے، انسان اور حیوان کی ضروریات میں بس یہی فرق ہے، میں ماہر معیشت نہیں ہوں مگر ناانصافی پر مبنی معاشی نظام اور اس کے تلے کچلے ہوئے عوام کی چیخیں مجھے بے چین کیے رکھتی ہیں۔ مجھے پاکستان میں وہ نظام چاہیے جو اس وقت سکینڈے نیوین کنٹریز میں نافذ ہے جو کسی کوبھوکا بھی نہیں سونے دیتا بلکہ آسائش بھی فراہم کرتا ہے اور فرد کی آزادی بھی مجروح نہیں ہوتی!
اور اب آگیا فرد کی آزادی کا مسئلہ تو ہمارا نہ تو معاش کا مسئلہ حل ہوا اور نہ بنیادی حقوق.... لنگڑی لولی جمہوریت، چار قدم چلنے کے بعد جس کی سانس پھول جاتی ہے، عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بولنے والے بہت کم ہیں اور جو بولتے ہیں انہیں نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں کچھ تحریریں ایسی پڑھتا ہوں اور ٹی وی چینلز پر کچھ چہرے ایسے دیکھتا ہوں کہ ان کے بی ہاف پر میں شرمندہ ہونے لگتا ہوں۔ کیا پکا سا منہ بنا کر جھوٹ بولتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کچھ لوگ ضمیر پر سمجھوتہ کیسے کرتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا لکھی لکھائی تحریر اپنے نام سے نقل کر رہے ہیں، مگر وہ سکون کی نیند سوتے ہیں، بلند وبالا ایوانوں میں ان کی آئوبھگت ہوتی ہے اور ہر دور حکومت میں ہوتی ہے۔ نہ انہیں شرم آتی ہے اور نہ انہیں استعمال کرنے والوں کے چہروں پر کوئی ندامت پائی جاتی ہے۔ ہم کتنی بدقسمت قوم ہیں کہ ہمیں معاشی انصاف بھی نہیں ملا اور سچ بولنے کی اجازت بھی نہیں۔ سوری، سچ بولنے والے تو اجازت طلب نہیں کیا کرتے! ایک سانحہ اس کے علاوہ ، مجھ ایسے کمزور لوگوں کو ایک سچ بولنے کے لئے دس جھوٹ بھی بولنا پڑتے ہیں، اس سے خدا اور وصالِ صنم دونوں نہیں ملتے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)