تبدیلی سرکا ر…

ایم اسلم چغتائی
14 جنوری ، 2022
تحریر:لندن…ایم اسلم چغتائی
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے نوجوانی میں کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا اور بہترین کارکردگی دکھائی اور پھر 1992ء میں پاکستان کو عالمی کپ بھی جتوایا اور اپنی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔ اپنی زندگی کا کافی حصہ یورپ میں بھی گزارا اور عالمی سطح پر بھی مقبولیت حاصل کی خوش شکل ہونے کی وجہ سے ’’پلے بوائے‘‘ کے نام سے بھی ان کی پہچان بنی۔ والدہ مرحومہ کے نام پر پاکستان میں کینسر کے علاج کے لئے بڑے اسپتال بنوائے اور کالج یونیورسٹیاں بھی بنوائیں اسی طرح کھیل کے علاوہ صحت اور تعلیم کے میدان میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ 1996ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی ا ور ایک سیاست دان کے طور پر سامنے آئے۔ ابتدائی دور میں پی ٹی آئی زیادہ مقبولیت نہ حاصل کرسکی اور انتخابات میں بھی اچھی کارکردگی نہ رہی مگر اس کے باوجود وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اپنے جلسے جلوسوں اور تقریروں سے سیاست کے میدان میں مقبول ہوتے ہوگئے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو زیادہ مقبولیت نہ ملی اور مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی عمران خان پوری قوت سے سیاست میں سرگرم رہے اور بڑے جلسے جلوسوں کے علاوہ چار ماہ کا اسلام آباد میں دھرنا دیا اور مزید مقبولیت حاصل کی۔ 2018ء کے قومی انتخابات میں تحریک انصاف نے میدان مار لیا اور زیادہ سیٹیں جیت کر فتح سے ہمکنار ہوئی اور اس طرح پاکستان کی سیاست میں تیس سالہ دو جماعتی دور اقتدار کا خاتمہ ہوا اور پی ٹی آئی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپوزیشن نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور محاذ آرائی شروع ہوگئی اور انتخابات کے نتائج کو الیکشن کی بجائے سلیکشن قرار دیا۔ عمران خان کے انتخابی مہم کے دوران بڑے وعدوں اور نعروں کی وجہ سے عوام نے پی ٹی آئی کی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ کر لیں تھیں۔ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران 100 دنوں کے اندر بڑی تبدیلیاں لانے اور کئی کام کرنے کے وعدے کئے جن میں مہنگائی بیروزگاری صحت عامہ جیسے مسائل ہیں۔ سو دن گزر گئے مگر کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ آئی اور پھر چھ ماہ اور سال کا ذکر ہوتا رہا مگرمہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا حکومت آج تک تمام مسائل کا ذمہ دار اپوزیشن کی سابقہ حکومتوں کو ٹھہراتی آئی ہے۔ حکومت کے نااہل وزراء اور مشیر آئے روز مخالفانہ سیاسی بیان دیتے رہتے ہیں مگر عوام کو تو اپنے مسائل سے مطلب ہے۔ عمران خان خود مخلص محب وطن اور محب قوم ہو سکتے ہیں مگر ان کے ناتجربہ کار، نااہل وزراء اور مشیروں کی وجہ سے حکومت اور جماعت اپنی مقبولیت کھو رہی ہے، ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا الزام ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے احتساب کے نام پر اپوزیشن کے سیاستدانوں سے انتقام لے رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سال میں مہنائی سو فی صد سے زیادہ بڑھ چکی ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہیلتھ کارڈ کا اجرا کرکے بڑا انقلابی کام شروع کیا ہے اور غریبوں کے لئے رہائشی منصوبے بھی بنائے ہیں۔ بلاشبہ کورونا کی وبا سے پوری دنیا کی معیشت پر برا اثر پڑا ہے مگر سائوتھ ایشیائی ممالک بنگلہ دیش، ہندوستان، سری لنکا وغیرہ کی معیشت پاکستان سے بہت بہتر ہیں اور مہنگائی بھی پاکستان سے کم ہے۔ عمران خان کو اپنی ساکھ اور اپنی جماعت کو اگر عوام کی نظروں میں زندہ رکھنا ہے تو پھر اپنی حکومت کے بقیہ کم عرصے میں اپنی کارکردگی دکھانا ہوگا۔ مہنگائی پر قابو پانا ہوگا، روپے کو مستحکم کرنا ہوگا، معیشت کو بہتر کرنا ہوگا، عوام کے بنیادی مسائل صحت، روزگار، رہائش، تعلیم وغیرہ کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے اور ان پر عمل کرکے دکھانا ہوگا وگر نہ اگلے انتخابات میں عوام آپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔