عبدالخالق … راہ حق کا مسافر

ڈاکٹر جمیل احمد میر
14 جنوری ، 2022
تحریر:برطانیہ…ڈاکٹر جمیل احمد میر
کرنل عبدالخالق کے انتقال پر بے حد افسوس ہے،یہ کل کی بات لگتی ہے، 50 سال پہلے عبد الخالق نشتر میڈیکل کالج میں میرا ہم جماعت رہا، وہ مشرقی پاکستان میں راجشاہی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا، مارچ1971ء میں وہاں فوجی کارروائی کے رد عمل میں ہونی والی شورش کے دوران غالباً مئی میں ہم سے دوسرے سال میں آن ملا تھا، ہر تعلیمی ادارے میں طلباء کی ذاتی پسند ناپسندپر گروہی درجہ بندی اوّائل وقت میں ہی ہو جاتی ہے، عام طور پر ہماری ذاتی کمزوریا ں یا خامیاں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہیں،خالق سنجیدہ اور خاموش طبع انسان تھا اگر کبھی اس سے بات ہو ئی بھی تو اس کی گفتگو میں متانت نظر آئی، جب کہ میری طبیعت میں پژمردگی اور قنوطیت تھی، شاید مجھے اس میں اپنے جیسی کوئی کمزوری نظر نہ آئی اوربناں بریں چوں کہ وہ دوسرے ہاسٹل میں رہتا تھا اور میرے گروپ میں بھی نہیں تھالٰہذا اس سے قربت نہ ہو سکی،نوجوانی میں ہم میں سے اکثریّت باریک بین نہیں ہوتی اور ہمیں اپنے اندر جھانکنے کا شعور ہوتا ہے نہ صلاحیّت نہ ہی فرصت چنانچہ ہمیں اپنی ذات کے حوالے سے سب کچھ اچھا دکھائی پڑتا ہے۔خالق کا خانہ لبالب بھرا ہواتھا ،اس کا ظرف بھی بڑا تھا ،اس لئے چھلکتا نہیں تھا، کالج سے فراغت کے بعد ہم سبھی عملی زندگی کی انجان راہوں پر نکل کھڑے ہوئے، میری طرح خالق بھی فوج کے ہتھے چڑھ گیا، اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ تھا ، چناں چہ اسے یہ اسیری راس آگئی،وہ فل کرنل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوا، میجر جنرل اسلم جس کا زیادہ وقت آرمی میڈیکل کالج میں گزرااور پھر اسی کالج کا پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوا ،کی وساطت سے ہم جماعت دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ2007ء میں چل نکلا، زیادہ تر ملاقاتیں راولپنڈی میں ہوئیں،مارچ 2012ء میں ایسی ہی ایک ملاقات میرے گھر منگلا میں ہوئی،خالق بھی آیا تھا، معلوم نہیں کیوں مجھے اس سے انس سا ہو گیا تھا، مجھے اس میں حقیقی عاجزی و انکساری کی جھلک نظر آئی، میرے اس تأثر کی تصدیق بعد کی ملاقاتوں سے ہوتی چلی گئی ، وہ کم گوضرور تھا مگر صاحبِ نظر تھا،انہی دنوں میری کتاب ’میر کے خطوط‘شائع ہوئی تھی، میں نے سبھی دوستوں کو یہ کتاب دی تھی، سب نے یہ کتاب پڑھی ہوگی مگر عبدالخالق نے اس کامطالعہ بالاستعجاب ہی نہیں بالاستیعاب بھی کیا، ایک دو ماہ بعد جب میں برطانیہ واپس آچکا تھا ،اس نے میری کتاب پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ لکھا ،اس نے کتاب کو دلچسپی، باریک بینی بلکہ خاصی محنت سے پڑھنے کے بعد نہ صرف اس میں موجودجلی اور خفی غلطیوں کی نشاندہی کی بلکہ ایک لسٹ بھی مرتب کر کے بھیجی، غلطیوں کی تصحیح پرہمارے درمیان ہلکا سا مناقشہ ہوا ، اس خط میں عبدالخالق نے ایک فقرہ لکھا تھا ’ چوں کہ آپ میرے کلاس فیلو رہے ہیں اور میں پیر پرست بھی نہیں ہوں وگرنہ بصورت دیگر، میں آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر لیتا، میں نے جواباً عرض کیا تھا ،یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے کلاس فیلو رہے ہیں لہذا میں آپ کا بزرگ نہیں ہوں اور مزید یہ کہ آپ پیر پرست بھی نہیں ہیں، اگر آپ غلطی سے یا غلط فہمی میں میرے دست ِشَر پرست پر بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیتے تو میرے لیے بڑی مشکل پیدا ہو جاتی،میرے ہاتھوں پر غلاظت کی اتنی دبیز تہیں ہیں کہ ایک تہہ دھوتا ہوں تو نیچے سے ایک اور نکل آتی ہےکبھی کبھی صفائی کے لیے جو پانی استعمال کرتا ہوں وہ خود گنگا کے پانی کی طرح صاف نہیں ہوتا ، لٰہذا کثافت،غلاظت اورتعفن میں اضافے کا باعث بنتا ہے لیکن جی ہی جی میں ، میں یہ خوش فہمی پالتا رہتا ہوں کہ صفائی ہو رہی ہے۔میں عبدالخالق کی تحریر اور اردوزبان کی لغت و الفاظ پر اس کی تفہیم اور گرفت دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گیا تھااور سوچتا تھا کہ کیسے کیسے گوہر آب دارو تاب دار ونایاب کالج میں ہمارے ہم رکاب رہےمگر ہماری نگاہیں ان کے ظاہری بھیس سے آگے کچھ نہ دیکھ پائیں۔عبدالخالق نے غالباً 2020ء کے وسط میں’ہم سب‘ میں لکھنا شروع کیا، میں اس کی تحاریر دیکھ کر مبہوت سا ہو گیا،قاری اسے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہو جاتا،یعنی اس کی تحریر خود کو پڑھواتی تھی۔ عبدالخالق کی زیادہ تر تحریریں یورپ کے مختلف شہروں کی سیاحت پر مشتمل تھیں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے شہروں اوران کے نظاروں کی جزیات کو بیان کرنے کا خاص ملکا عطا فرمایا ہے۔وہ مظر کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کرتا کہ لگتا تھا جیسے کیمرے سے کچھی ہو ئی تصویر کو دیکھ رہے ہوں ۔اس کی تحریر ’سن رسیدگی میں کیا کریں‘ پڑھی تھی، اچھی لگی ، میرا ،زندگی کے فلسفے کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ میں توساری عمر اپنی زندگی کے مسائل کو الجبرا ، جیومیٹری یعنی میتھ میٹکس کی مدد سے حل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہا، کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ عبد الخالق دسمبر کے دوسرے ہفتے میں کورونا مبتلا ہوا ،جب اس کی بیماری کا سناتو اس کی تکلیف کو اپنے سینے میں محسوس کیا، میں ہرروز بڑی عاجزی سے اپنے رب کے حضور اس کی شفایابی کے لئے دعا کرتا رہا مگرپتہ نہیں کیوں مجھے یہ احساس تھا اس کی یہ بیماری اسے پاک صاف کر کے اپنے ربّ کی بارگاہ میں پیش کرنے کا بہانہ ہے،دو ہفتے مصنوعی تنفس پر رہنے کے بعد وہ آخر سر خ رو ہوا ۔کچھ لوگ شمع محفل نہیں ہوتے مگر جب محفل سے اٹھ جاتے ہیں تو محفل سُونی سُونی سی لگنے لگتی ہے،کچھ لوگ بھریا میلہ چھوڑ کر اس طرح چلے جاتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میلہ تو ان کے دم قدم سے آباد تھا۔ کچھ لوگ زندگی کے سفر میں ایسے بھی ہم رکاب ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنا اسٹیشن آنے پر سواری سے اترجاتے ہیں تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش وہ کچھ دیر اورہمارے ساتھ شریک سفر رہتے لیکن جانے والا تو راہی ملک عدم ہوتا ہے ،کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے،ایسے دوستوں کی یادیں ہی ہمارا سرمایہ حیات بن جاتی ہیں،۔ انہیں یادوں سے کلیاں پھوٹتی اور پھول چٹختے ہیں اور ان کی خوش بو سے یادوں کی بہشت مہک اٹھتی ہے ،اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے،وہ راہ حق کا مسافر تھا اورحق سے جا ملا۔