سانحہ مری، ہم نے کیا سبق سیکھا…؟

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
14 جنوری ، 2022
ممبر قومی اسمبلی… ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
ملکہ کوہسار مری میں سیاحوںبشمول معصوم کمسن بچوں کی المناک اموات نے ملک بھر میں غم وافسوس کی لہر دوڑا دی ہے، کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ برفباری سے لطف اندوز ہونے کیلئے جانے والوں کیلئے یہ سفرزندگی کا آخری سفر ثابت ہوگا۔ ہر سال دسمبر میں ملکہ کوہسار مری میں برفباری متوقع ہوتی ہے جس سے لطف اندوزہونے کیلئے ملک بھر سے سیاح مری کا رُخ کرتے ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بے شمار خوبصورت سیاحتی مقامات سے نوازا ہے لیکن سیاحت کے حوالے سے مری اپنی مثال آپ ہے۔ مری کی آبادکاری ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں جنگ ِ آزادی 1857سے قبل ہوئی جب یہاں کا ٹھنڈا خوشگوار موسم انگریز افسران کو انگلستان جیسا محسوس ہوا، ایک طویل عرصے تک مری متحدہ پنجاب کا موسم گرما میں ہیڈکوارٹر بھی رہا، آزادی سے قبل بھی مری کو ایک مقبول سیاحتی مقام کا درجہ حاصل تھا، تاہم یہاں کے کچھ مقامات مثلاً مال روڈ اور لارنس کالج وغیرہ میں برصغیر کے مقامی افراد کا داخلہ ممنوع تھا ۔جب سال 1857ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی شروع ہوئی تو مری اور ہزارہ کے بہادر قبائلوں نے علم بغاوت بلند کردیا، اس دوران عباسی قبیلے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بہادری کی بہت سی داستانیں رقم کیں۔ انگریزوں نے راولپنڈی کو بذریعہ ریلوے باقی علاقوں سے منسلک کیا تو وادی مری میں انگریز افسران کے کیلئے رہائش گاہوں سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائی، قیام ِ پاکستان کے بعدبھی مری نے ملک کے مقبول ترین سیاحتی مقام کا درجہ برقرار رکھا جہاںگرمیوں میں خوشگوار موسم اور سردیوں میں برفباری اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ یہاں عوامی مقامات ، ہوٹلز کے علاوہ مختلف سرکاری عمارتیں بھی موجود ہیں، گورنر پنجاب کی رہائش گاہ کشمیر پوائنٹ کی خوبصورت عمارت انیسویں صدی میں تعمیر کی گئی، اس طرح صوبائی حکومتوں کیلئے بھی الگ عمارتیں مختص کی گئی ہیں، یہاںبے شمار حکومتی، غیر حکومتی اور نجی اداروں کے زیرانتظام ریسٹ ہاؤس اور گیسٹ ہاؤس ہیں۔ مری پاک فوج کی 12ویں انفنٹری ڈویژن کا بھی ہیڈ کوارٹر ہے ، یہاں آرمی کے زیرانتظام متعدد تعلیمی اور تربیتی ادارے اور سی ایم ایچ اسپتال اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہیں، پتریاٹہ کے نزدیک لوئر ٹوپہ میں پاک فضائیہ کی ایئربیس اور تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ خوبصورت سیاحتی مقام آجکل پابندیوں کی زد میں ہے، انتظامیہ کی جانب سے عوام کے داخلے پر پابندی کی وجہ حالیہ شدید برفباری کے باعث سڑکوں پر سیاحوں کی المناک اموات ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں گزشتہ سات دہائیوں میں بے شمار بحران اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ، قدرتی آفات کی صورت میں کبھی سیلاب تباہی مچا دیتا ہے تو کبھی آتش زدگی کے واقعات، کبھی زلزلے سے شہر کے شہر تباہ ہوجاتے ہیں تو کبھی برفباری جاں لیوا ثابت ہوتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر قوم کو کم و بیش ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ دیگر قومیں ایسے واقعات سے سبق حاصل کرتی ہیں اوران کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرتی ہیں، ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف ہے ، ہمارے ملک میں بیشتر ادارے اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف غفلت برتتے ہیں بلکہ اپنی انتظامی نااہلی کودوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، انتظامیہ وقتی حل ڈھونڈتی ہے جبکہ اصل مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہوجاتا ہے۔ کیا مری میںحالیہ تباہی کی ذمہ داری شدیدبرفباری پر عائد کی جائے یا پھر سیاحوں کی بڑی تعداد کو موردالزام ٹھہرایا جائے؟ کیاکچھ ہوٹل انتظامیہ کے بے رحمانہ رویے اس المیہ کا باعث بنے یا پھر برف میں پھنسی گاڑیوںکے چلتے ہیٹرز میں موجود کاربن مونو آکسائیڈ نے مسافروں کو موت کی اندھیری وادیوںمیں سُلا دیا؟ ان سوالات پر تاحال بحث جاری ہے۔ تاہم میری نظر میں زیادہ ترسانحات کے پس پردہ ناقص کمیونیکشن کا اہم کردار ہو تا ہے ، بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں بھی ہم لوگ کمیونیکیشن مینجمنٹ کے شعبے میں بہت پیچھے ہیں، ہمارے عوام میں آگاہی کا فقدان ہے ، ہمارے ادارے معلومات کے تبادلے میں ہچکچاتے ہیں، ہمارے ادارے اس وقت خواب غفلت سے جاگتے ہیں جب کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ اگرہم ٹوزازم انڈسٹری کو ملکی معیشت کے فروغ کیلئے مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پرکچھ اہم فیصلے کرنے ہونگے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو سنجیدہ لیتے ہوئے بروقت حفاظتی انتظامات، سیاحوں کیلئے محفوظ راستے کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کا استعمال، ٹورازم پولیس اور ہیلپ لائن کا قیام اور سب سے بڑھ کر سیاحتی مقامات میں قائم ہوٹلز / ریسٹورنٹس کوقانون کے ضابطوں میں لانے کے انتظامات۔ضروری کہ جو ہوٹل مالکان سیاحوں کی مدد کی بجائے ناجائز منافع خوری اور بے حسی میں ملوث تھے، انہیں کڑی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے لیکن کسی کا ذریعہ معاش متاثر نہیں ہونا چاہئے۔تاریخی اہمیت کا حامل مری کا علاقہ بجا طور پر عالمی سطح کا سیاحتی مرکز بن سکتا ہے مگراس کیلئے ضروری ہے کہ سانحہ مری سے سبق حاصل کرتے ہوئے سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے بہترین اقدامات کئے جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)