اپوزیشن کیساتھ امتیازی سلوک بہتر ہوگا حکومت اراکین اسمبلی کو کہے گھر بیٹھ جائیں، پشاور ہائیکورٹ

14 جنوری ، 2022

پشاور(نیوز رپورٹرر)پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین خان نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کیساتھ امتیازی سلوک رکھنا ہے اورانہیں ہر معاملے میں نظرانداز کرنا ہے حتیٰ کہ اس علاقے کے عوام کیلئے بنائے گئے منصوبوں کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھانا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ حکومت اراکین اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کیلئے اقدامات کرے اور انہیں سادہ الفاظ میں کہہ دیں کہ آپ لوگ باہر بیٹھ جائیں کہ آپکی اکثریت نہیں جبکہ جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ کس طرح ایک منصوبے کےلئے منظورشدہ فنڈز کےلئے ایڈمنسٹریٹیو اپروول کو واپس لیا گیا، کیا صرف ایک حلقہ اس طرح ہے جس کےلئے فنڈز نہیں ہے ،اگر فنڈز نہیں ہوتے پھر تو سارے حلقے کےلئے نہیں ہوتے لیکن صرف اپوزیشن کے رکن صوبائی اسمبلی جمشید مہمند کو کیوں نشانہ بنایا گیا، فاضل بینچ نے یہ ریمارکس گزشتہ روز رکن صوبائی اسمبلی جمشید خان مہمند کیجانب سے دائر رٹ کی سماعت کے دوران دیئے۔ انکے وکیل خوشدل خان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے وہ پی کے 55مردان سے رکن منتخب اسمبلی ہے، اس حلقے کے سڑکوں کےلئے 20 کروڑ روپے لاگت کا ٹینڈر منظور ہوا جس کا باقاعدہ اشتہار بھی جاری کیا گیا تاہم صوبائی حکومت کی ایما ءپر ان منصوبوں کی منظوری واپس لے لی گئی ،حکومت نے موقف اختیار کیا کہ فنڈز کی کمی ہے حالانکہ اس ضمن میں محکمہ خزانہ نے 528 ملین روپے جاری کئے ہیں اور اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ رکن صوبائی اسمبلی اور اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھتے ہیں۔ اس دوران جسٹس روح الامین نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلوں میں اس امتیازی سلوک کےلئے ایک مکینزم کو تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تو پھر کس طرح ایک ممبر کوآپ اسکے حق سے محروم رکھ رہے ہیں، لگتا تو یہی ہے کہ متعلقہ حکام نے صرف اپنے حکام بالا کو خوش رکھنے کےلئے یہ اقدام اٹھایا یا پھر اس پر دباؤ تھا تاہم دونوں صورتوں میں اس حلقہ کے عوام ہی متاثر ہونگے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ صرف اس بنیاد پر کسی کےساتھ امتیازی سلوک نہیں رکھا جا سکتا کہ اس کا تعلق اپوزیشن جماعت سے ہے جبکہ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ حکومت بتائے صرف اس حلقے کےلئے فنڈز ناپید ہوگئے ہیں یا دوسرے حلقے بھی اس سے متاثر ہونگے اس دوران وہاں موجود نمائندوں نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کی کمی ہے اور جیسے ہی یہ کمی پوری ہوگی تو اس ٹینڈر کو دوبارہ کھولا جائے گا ، جسٹس روح الامین نے کہا کہ آپ ے جب منظوری دینی تھی تو آپ کو معلوم نہیں تھا کہ فنڈز نہیں ہے، لگتا یہی ہے کہ بعد میں آپ لوگوں نے اپنے اعلی حکام کو خوش کرنے کےلئے اپوزیشن کے رکن صوبائی اسمبلی کو نشانہ بنایا ہے جسکی ہم اجازت نہیں دے سکتے۔ خوشدل خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ جب ایک فنڈ منظور ہو جائے اور اس کی ایڈمنسٹریٹیو اپروول بھی ہو جائے تو وہ واپس نہیں لیا جا سکتا، اس فنڈز کی منظوری ڈپٹی کمشنرنے دی ہے لیکن جوآڈر واپس لیا گیا ،خوشدل خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ ماضی میں کبھی اپوزیشن سڑکوں پر نہیں آئی، یہ واحد حکومت ہے کہ اس میں وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے بھی احتجاج ہورہا ہے انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ایسے اقدامات سے لوگوں میں بے چینی پھیلتی ہے اور اسکا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ حلقے سے عوامی نمائندے کی رپوٹیشن کو خراب کیا جائے۔ عدالت نے ابزرویشن دی کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ فنڈز کی تقسیم منصفانہ ہو یا پھر ایسے نمائندوں کے ذریعے ہو جو کہ عوام کے ساتھ نزدیکی رابطہ میں ہو، کسی کی مرضی نہیں چلنے دینگے بعد ازاں عدالت نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ جمشید مہمند کے جو منصوبے ڈراپ ہوئے ہیں، انہیں واپس ای بڈنگ میں شامل کریں اور رٹ کو باقاعدہ سماعت کےلئے منظور کرلیا جبکہ متعلقہ فریقین کو ہدایت کی کہ اگر وہ مزید کوئی جواب جمع کرنا چاہتے ہیں تو وہ جمع کر سکتے ہیں۔