منی بجٹ منظور، اپوزیشن ناکام، حزب اختلاف کی تمام تر ترامیم اور ان پر الگ الگ ووٹنگ کا مطالبہ بھی مسترد، حق میں 163 ، مخالفت میں 146 ووٹ

14 جنوری ، 2022

اسلام آباد(کامرس رپورٹر،نیوز رپورٹر، وقائع نگار،ایجنسیاں)اپوزیشن پھر ناکام،قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج ‘ اسپیکر ڈائس کے گھیرائو اور شدید نعرے بازی کے باوجود ضمنی مالیاتی بل2021ء(منی بجٹ) اور سٹیٹ بنک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2022ء کی منظوری دیتے ہوئے اپوزیشن کی پیش کر دہ ترامیم اوران پر الگ الگ ووٹنگ کا مطالبہ بھی کثرت رائے سے مسترد کردیا جبکہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے پیش کردہ ترامیم ضمنی مالیاتی بل میں منظوری کے بعد شامل کرلی گئیں،ضمنی مالیاتی بل 2021ء کی شق وار منظوری کے دوران حکومت کی عددی اکثریت 168 جبکہ اپوزیشن کے 150ارکان کی رائے سامنے آئی‘ اپوزیشن کے مطالبے پر دوسری مرتبہ ہونے والی رائے شماری میں بھی اپوزیشن کے 146 ووٹوں کے مقابلے میں حکومت کے 163 ووٹ نکلے، اپوزیشن کے 12 اور حکومت کے 12ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے ،دوسری مرتبہ اپوزیشن کو چار کم اور حکومت کو پانچ کم ووٹ ملے کیونکہ حکومتی اور اپوزیشن بنجوں کے ایوان سے چلے گئے تھے،بلز کی منظوری پر احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان وزیراعظم اور سپیکر روسٹرم کے سامنے کھڑے ہوئے تو سکیورٹی اہلکاروں نے وزیراعظم کے گردحفاظتی حصار بنالیاتاہم اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی کا سلسلہ جاری رکھا۔حزب اختلاف نے منی بجٹ پر حکومت کو شدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ فنانس ترمیمی بل کے ذریعے عوام پر 350ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا،غریب پس گیاہے جبکہ وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہناتھاکہ منی بجٹ کے ذریعے لگائے جانے والے 343 ارب روپے میں سے 280ارب ریفنڈ ہو جائیں گے، صرف 71ارب روپے کا ٹیکس عائد کیا جارہا ہے، اپوزیشن بتائے عوام پر کونسا بوجھ پڑاہے ۔یہ ٹیکسوں کی گیم نہیں بلکہ یہ جو واویلے کا طوفان ہے اس کی وجہ ڈاکومنٹیشن ہے،اجلاس کے دور ان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل ،اسلام آباد ہیلتھ کیئر مینجمنٹ اتھارٹی بل 2021،سرکاری حصول انضباطی اتھارٹی بل 2021، اوگرا ترمیمی بل 2021 کثرتِ رائے سے منظور کرلیاگیا۔جمعرات کو اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ وزیراعظم عمران خان آئے تو ایوان میں حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا گیا البتہ اپوزیشن نے گونیازی گوکے نعرے لگائے ۔ اپوزیشن نے ضمنی مالیاتی بل پر بحث کا مطالبہ کیا ۔سپیکر نے کہا کہ اس پر گزشتہ روز بحث ہوگئی ہے۔ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شوکت ترین نے ضمنی بجٹ پیش کیا ہے، اس کی ضرورت پیش کیوں آئی،پاکستان کی تاریخ میں اتنے زیادہ ضمنی ٹیکسز کسی ضمنی بجٹ میں آج تک پیش نہیں کیے گئے۔کیا آپ کے سرمایے میں کمی آئی ہے یا اخراجات میں اضافہ ہوا ہے کہ عوام پر اضافی بوجھ لاد رہے ہیں۔ہمیں بس یہ بتادیں کہ کون سی چیزیں مہنگی نہیں ہوں گی ۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ شاہد خان عباسی اور دیگر اراکین نے پوچھا کہ یہ بل کیوں لے کر آ رہے ہیں تو میں انہیں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم آمدن کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔آج ہماری 18 سے 20ٹریلین کی ریٹیل سیلز ہیں، اس میں سے صرف ساڑھے تین ٹریلین کو دستاویزی شکل دی جاتی ہے، جب بھی دستاویزی شکل دینے کی بات کی جاتی ہے تو شدید واویلا مچ جاتا ہے کیونکہ سب نے بندر بانٹ کی ہوئی ہے۔ اس سے سب بھاگتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کو دستاویزی شکل دی جائے گی ۔ ہماری حکومت تو صرف تین سال سے ہے، پچھلے 70سال سے کیا ہوا ہے،جب تک ہم ٹیکس کو 18سے 19 فیصد نہیں کریں گے اس وقت تک چھ سے آٹھ شرح نمو نہیں دکھا سکتے، یہ سب جانتے ہیں لیکن شتر مرغ بنے ہوئے ہیں۔شوکت ترین نےکہاکہ گزشتہ حکومتیں 13 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئی ہیں، ماضی کی حکومتوں نے معیشت کے بنیادی عناصر کو درست کرنے کی کوششیں نہیں کیں، آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اس دوران دوست ممالک نے بھی مدد فراہم کی ، شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے ریونیو 35 فیصد بڑھا دیا ہے۔ ایف بی آر میں کرپشن ستر سال سے ہو رہی ہے، گزشتہ حکومتوں نے کتنی روکی؟ ہم نے سب کچھ ری فنڈ کر دیا ہے اب قیمتوں میں کمی ہونی چاہئے ۔ ہم چھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کر رہے ہیں۔ 71 ارب پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے جو ترمیم متعارف کرائی ہے اس میں خام تیل اور درآمدی اشیا پر متعلقہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے، میرا وزیر خزانہ سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے یہ بات مان لی ہے؟ انہوں نے خود کہا کہ وہ کچھ ٹیکس واپس لے رہے ہیں۔بلاول کے خطاب کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ملک کی معاشی خودمختاری اور قومی سلامتی کو قربان کر رہی ہے حالانکہ وہ تقریباً 13 بار آئی ایم ایف کے پاس گئے، تو کیا انہوں نے ہر بار ہماری معاشی خودمختاری کو ختم کیا؟۔اس بات پر بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر خزانہ اور نہ ہی وزیر اعظم اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں۔ وزیرخزانہ کہتے ہیں کیوں اتنا شورہورہا ہے، شوکت ترین کو خود سمجھ نہیں آرہی کہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے، وہ خود کو کراچی کا نمائندہ کہتے ہیں، وزیرصاحب کراچی میں گھومیں اور عوام سے پوچھیں وہ کیوں شورمچارہے ہیں، مسلم لیگ(ن) کے رہنما رانا تنویر نےکہا کہ وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بنیاد ٹھیک کررہے ہیں لیکن یہ کیسی بنیاد ٹھیک کررہے ہیں جو اپوزیشن اور حکومت دونوں میں سے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔مالیاتی بل کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا‘ بل پیش ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے کہا کہ سپیکر صاحب! سٹیٹ بینک بل کی منظوری سے ملکی خودمختاری داؤ پر لگانے والوں میں آپ کا نام بھی لیا جائے گا، عوام کی نظریں آپ پر ہیں، میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ اس بل کو منظور نہ ہونے دیں، ہم سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا سودا نہیں ہونے دیں گے ۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ اگر سٹیٹ بینک ترمیمی بل ملک کے مفاد میں ہے تو اسے رات کی تاریکی میں کیوں منظور کیا جارہا ہے؟ بلاول بھٹو نے کہا کہ سٹیٹ بینک ہماری پارلیمنٹ اور عدلیہ کو نہیں بیرونی اداروں کو جواب دہ ہوگا اور دشمن کو اس صورتحال کا فائدہ ہوگا، ہمارا ایٹمی پروگرام کل بھی ان کے نشانے پر تھا آج بھی ان کے نشانے پر ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ اداروں کو خودمختار کرنا پی ٹی آئی کا منشور تھا، سٹیٹ بینک بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جائے گا، حکومت کے پاس اسٹیٹ بینک چلانے کی پوری اتھارٹی ہوگی۔ احسن اقبال نے کہا کہ 6ماہ قبل وزیر خزانہ نے ایوان میں کہا تھا کہ ہم نے ملکی معیشت کو بچا لیا ہے۔ موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا، پیٹرول مہنگا کر کے انہوں نے گاڑی والے کو موٹرسائیکل پر منتقل کر دیا،پیپلز پارٹی کے آ غا رفیع نے کہا کہ حکومت اس بل پر عوامی رائے حاصل کرے۔ حکومت عوام پر رحم کرے۔ عبد القادر پٹیل نے کہا کہ حکومت تباہی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے جارہی ہے۔یہ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومتیں آئی ایم ایف کے پاس گئیں،آپ اپنے آپ کو گولی مارنے کے چکر میں 9 ماہ لیٹ ہوئے،آپ سر کے بل پر آئی ایم ایف کے پاس گئے،مسلم لیگ ن کے علی گوہر نے کہا کہ ہم عوام پر اس حملے کی مخالفت کریں گے،اے این پی کے امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گیس کے حوالے سے شدید مشکلات ہیں،خیبرپختونخوا کو ضرورت کے مطابق گیس فراہم کی جائے،وزیر توا نائی حماد اظہر نے کہا کہ خیبر پختونخوا ملک بھر کی بارہ سے تیرہ فیصد گیس پیدا کرتا ہے ایس این جی پی ایل کے نیٹ ورک پر 2300 سے زائد صنعتیں موجود ہیںاس وقت تمام صنعتوں کو گیس فراہم نہیں کی جارہی۔ آغا حسن بلوچ نے کہا کہ اس بجٹ کو میگا بجٹ کہتا ہوں بجٹ میں تمام اشیاء خوردونوش پر ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ جاوید لطیف نے کہا کہ74سالوں میں ایسی معاشی صورتحال نہیں دیکھی ، پاکستان کی معاشی تباہی پر اس ایوان میں بات کرنے کو تیار نہیں، محسن داوڑ نے کہا کہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر کیوں جاری نہیں ہوئے۔ آپ نے وزیرستان کو ایوان میں نما ئند گی کےحق سے محروم رکھا۔ایم کیو ایم کی کشور زہرہ نے کہا کہ ایم کیو ایم جس طبقے کی نمائندگی کر رہی ہے،یہ منی بجٹ اس کیلئے الجھن بن کر آیا ہے۔