سانحہ مری، ریاست اور این ڈی ایم اے 23 ہلاکتوں کے ذمہ دار، وزیراعظم قصور واروں کا تعین کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ

14 جنوری ، 2022

اسلام آباد (خبر نگار،نیوز ایجنسیاں)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سانحہ مری میں 23ہلاکتوں کا ذمہ دار ریاست اوراین ڈی ایم اے کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا،اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست اس سانحے کی ذمے دار ہے،باہر جا کر تقریریں سب کرتے ہیں، قانون پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا،وزیراعظم آئندہ ہفتے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کااجلاس بلا کر قصورواروں کا تعین کریں ، این ڈی ایم اے ممبر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ 2018ء کے بعد نہیں ہوئی تو ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے، این ڈی ایم اے وزیراعظم کو کمیشن کا اجلاس بلانے کیلئے خط لکھے ، کمیشن اس بات کا جائزہ لے کہ این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل نہ کرنا بظاہر واحد وجہ ہے جو معصوم زندگیوں کے نقصان کا باعث بنی۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر ممبر این ڈی ایم اے ادریس محسود پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن میں وزیرعظم ، اپوزیشن لیڈر ، وزرائے اعلیٰ سمیت سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں۔ کیا اس سے زیادہ طاقتور کوئی باڈی ہو سکتی ہے؟ 9 بچوں سمیت 23 افراد کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ قانون میں این ڈی ایم اے کسی سانحہ سے نمٹنے کی تیاری اور رسپانس کا ذمہ دار ہے، بعد ازاں عدالت نے تحریری حکم نامہ جاری کیا کہ وزیراعظم کمیشن کا اجلاس بلائیں جس کی کارروائی 21 جنوری تک مکمل کی جائے۔ کمیشن دیکھے کہ این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اتھارٹی کیوں غیر فعال ہے؟ کمیشن این ڈی ایم اے ایکٹ پر عمل درآمد میں ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کر ے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، رجسٹرار آرڈر کی کاپی عمل درآمد کیلئے این ڈی ایم اے اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو بھجوائیں۔ اگر آئندہ سماعت تک کمیشن کا اجلاس نہ بلایا گیا تو چیئرمین این ڈی ایم اے اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری خود پیش ہوں اور بتائیں کہ شہریوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو؟نیوز ایجنسیوں کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں این ڈی ایم اے سے متعلقہ قوانین پڑھنے کی ہدایت کی عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ اگر اس ڈسٹرکٹ کے لیے کوئی مینجمنٹ پلان نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ یہ اتنی بڑی باڈی میں سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں، اپوزیشن بھی ہے، کیا اتنی بڑی باڈی کی کبھی بھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں اس حوالے سے ہدایات لے کر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتا ہوں، این ڈی ایم اے حکام سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ قانون میں این ڈی ایم اے کسی سانحے سے نمٹنے کی تیاری اور رسپانس کا ذمے دار ہے؟ کل کو خدا نخواستہ زلزلہ آئے تو آپ نے کہنا ہے کہ ہماری ذمے داری نہیں، پارلیمنٹ نے 2010ء میں ایک قانون بنایا ہے، اس پر عمل درآمد ہونا تھا، آپ ناکام ہوئے ہیں، آپ کی ذمے داری تھی کہ میٹنگ بلاتے، اس علاقے کیلئے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے ، کسی اور پرالزام نہ لگائیں ، کیا آپ نے کوئی نیشنل پلان بنایا؟ اتنا زبردست قانون ہے کہ ہر ضلع کے ذمے داروں تک کے لیے ذمے داری ڈالتا ہے، آپ کی ذمے داری ہے کہ اس باڈی کی میٹنگز ہوں اورقانون پر عمل درآمد ہو۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ صوبائی باڈیز کی کبھی میٹنگز ہوئی ہیں؟ اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی، 2010ء میں قانون بنا، آپ 2022ء میں عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں چیک کرنا ہے، اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا، بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ان اموات کے آپ ذمے دار ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت اس پر فیصلہ دے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، آئندہ جمعے تک رپورٹ جمع کرائیں، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی زیادہ وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی اہم اور فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس دوران کوئی اور سانحہ ہو گیا تو ذمے دار کون ہو گا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کر دی۔