پارلیمنٹ ڈائری،ایوان کا بیرونی منظر بھی ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہا

14 جنوری ، 2022

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس کا بیرونی منظر بھی ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہا، مالیاتی بل کو منظور کرانے کے لئے پوری سرکاری مشینری حرکت میں آئی تھی، قومی اسمبلی میں مالیاتی بل جس کے ذریعے منی بجٹ پیش کیا گیاہے وزیراعظم عمران خان کے لئےڈرائونے خواب کا درجہ اختیار کرگیا۔ پہلے پارلیمانی پارٹی میں ان کے وزیر دفاع پرویز خٹک سے ان کی منہ ماری ہوگئی اور پھر ایوان میں ان کی موجودگی میں اور ان کے منہ پر حزب اختلاف کے ارکان نے ایسے ناگفتنی نعرے لگائے جنہیں سننا انہیں کبھی گوارا نہ تھا اور انہی نعروں کا عذر پیش کرکے وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے گریزاں رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد وہ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ جب ایوان میں نہ پہنچے تو لابیوں ا ور راہداریوں میں قیاس آرائیوں کا طوفان امڈ آیا وہ اس دوران اپنے چیمبر میں موجود تھے تاہم ارکان کو اس کی خبر نہیں تھی۔ پرویز خٹک جو پانچ سال تک خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ رہے اس عرصے کو تحریک انصاف اپنے لئے وجہ افتخار گردانتی ہے وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد صوبے میں دو تہائی اکثریت ملنے پر دوبارہ صوبےکی وزارت اعلیٰ کے خو اہاں تھے انہیں نہ صرف عمران خان کے مقرب رہنمائوں میں شمارکیا جاتاتھا بلکہ تحریک انصاف کے اندر اور باہر انہیں عندالضرورت متبادل سربراہ بھی تصور کیا جاتا تھا انہیں وزارت دفاع کا حلف اس یقین دہانی کے ساتھ وفاق میں دلایا گیا کہ وہ چند ہفتوں بعد ملک کے وزیر داخلہ بنا دیئے جائیں گے۔ وہ اس کے لئے رضا مند ہوگئے اور اس بارے میں پرجوش بھی تھے وعدہ خود عمران خان نےکیاتھا جو ایفا نہ ہوسکا اس نے پرویز خٹک کوجماعت کی قیادت کےبارے میں کافی تلخ بنادیا۔ اپنے ٹھنڈے مزاج اور خوش خلقی کے باعث انہیں بڑی قدر و منزلت حاصل رہی ہے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مراسم کبھی خوشگوار نہیں رہے اس دوران جب کبھی حکومت کو حزب اختلاف کےساتھ سلسلہ جنبانی استوار کرنا ہوتا تو پرویز خٹک کام آتے۔ انہیں صوبے کے وزیراعلیٰ سے شکایت رہی ہے کہ وہ انہیں گزند پہنچانے کے درپے رہتے ہیں اور ان کے رفقا کا خیال ہے کہ وہ ایسا وزیراعظم کے ایما پر کرتے ہیں۔پارلیمانی پارٹی میں پرویز خٹک نے گیس کی فراہمی کا سوال اٹھایا جس پر وزیراعظم سے ان کی تلخی ہوئی اس دوران توانائی کے وزیرحماد اظہر نے سرکاری موقف پیش کرناچاہا تو انہیں پرویزخٹک نے جھاڑ دیا اور دوسری جانب عمران خان سے لفظی تکرار جاری رکھی اس پر وزیراعظم نے پرویز خٹک کو یاد دلایا کہ وہ بلیک میل نہیں ہونگے اگر وہ انہیں گوارا نہیں تو کسی دوسرے کو وزیراعظم بنالیں تلخی کے بعد پرویز خٹک اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔قومی اسمبلی نے مالیاتی بل منظور کرنے سے پہلے پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی اس قرارداد پر غور کرکے اسے مسترد کردیا جس میں مالیاتی بل کو رائے عامہ کی خاطر مشتہر کرنے کا تقاضا کیا گیاتھا ان کی تحریک کو 150 ووٹ ملے اور پوری حزب اختلاف نے ان کا ساتھ دیا اس تحریک پر ہوئی رائے شماری نے حکومت کو یوں بے نقاب کردیا کہ اسے محض 168 ووٹ ملے جو اس کی ایوان میں عددی قوت سے گیارہ کم تھے صرف یہی نہیں اس گنتی کو معیار بنالیا جائے تو حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت کی تائید حاصل نہیں مالیاتی بل ایسا موقع ہوتا ہے جب حکومت ایوان میں اپنی قوت اور اکثریت کا اظہار کرتی ہے مالیاتی بل کو منظورکرانے کے لئے پوری سرکاری مشینری حرکت میں آئی تھی اس دوران ارکان اور بالخصوص حلیف جماعتوں کو تاکید کے لئے ٹیلی فون کالز بھی موصول ہوئیں اس کےباوجود حکومت کی حالت پتلی رہی۔ اسٹیٹ بینک کی نام نہاد خودمختاری کے لئے قانون کی منظوری کی آزمائش ایوان بالا سینیٹ میں ہوگی جہاں حزب اختلاف اکثریت میں ہے ممکن ہے کہ وہ رکاوٹ کھڑی کرے تو پھر حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کا سہارا لینا پڑے گا۔ جمعرات کو پارلیمنٹ ہائوس کا بیرونی منظر بھی ہنگاموں کی آماجگاہ بنا رہا۔صوبہ ہزارہ تحریک اور پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی قابل لحاظ تعداد نے ڈی چوک کو گھیر کر ٹریفک مسدود کردی حالانکہ پولیس نے ان کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ریڈزون میں آنے والے راستوں کو ہی بندکرڈالا تھا۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے بھی مظاہرہ کیا دونوں مظاہروں کا ہدف منی بجٹ ہی تھا جسے ملک اور عوام کے لئے تباہی و بربادی سے تعبیرکیا گیا حزب اختلاف کی قیادت نے ان احتجاجی ریلیوں سے الگ الگ خطاب کرتے ہو ئے اس امرکا یقین دلایا کہ موجودہ حکمرانوں کو بہت جلد قصر اقتدار سے بے دخل کردینگے انہوں نے عوام کو چوکنا رہنے اور سڑکوں پرنکل آنے کے لئے تیار رہنے کے لئے کہا۔ قومی اسمبلی میں اسپیکر اسد قیصر جنہوں نے مالیاتی بل کی منظوری کے پہلےمرحلے میں نظامت کی ذمہ داریاں انجام دیں صاف طور پرحکومت کی طرفداری کرتے رہے اس پر مسلم لیگ نون کے سیکریٹری جنرل سابق وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کو انہیں متنبہ کرنا پڑا کہ وہ حکمران جماعت کے ہی نہیں پورے ایوان کے اسپیکر ہیں بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے نظامت سنبھال لی انہوں نے ضمنی بجٹ کی منظوری کو پر لگادیئے۔