ملک کی بیرونی فنانسنگ ضروریات بڑھ کر 30ارب ڈالرز ہوگئی، سابق وزیر خزانہ

14 جنوری ، 2022

اسلام آباد (مہتاب حیدر) سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا کہنا ہے کہ ملک کی بیرونی فنانسنگ ضروریات مختصر مدت میں بڑھ کر 30 ارب ڈالرز ہوگئی ہیں۔ جب کہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ مالی سال 2022 میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ممکنہ طور پر جی ڈی پی کا 5فیصد تک ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے خارجہ شعبے کے مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اسلام آباد کو رواں مالی سال کی دوسری ششماہی (دسمبر تا جون) میں غیرملکی قرضوں کی مد میں 8.638 ارب ڈالرز کی بھاری رقم واپس کرنی ہے۔ روپے کے لحاظ سے گزشتہ چار برس میں غیرملکی قرضوں کی ادائیگی 399 فیصد بڑھ چکی ہے۔ 2017-18 میں یہ 286.6 ارب روپے تھے اور اب یہ 1427.5 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کو سود کے ساتھ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جو کہ 12.4 ارب ڈالرز سے زائد بنتا ہے۔ بیرونی شعبے کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھیں تو اگر آئی ایم ایف پروگرام جنوری کے آخر یا فروری 2022 کے شروع تک بحال نہیں ہوا تو پاکستان کو ایک سنگین معاشی بحران کا سامنا ہوگا۔ سعودی عرب سے 3 ارب ڈالرز، آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالرز، عالمی یوروبونڈ کے ذریعے 1 ارب ڈالرز حاصل کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے پاس 31 دسمبر، 2021 تک 17.6 ارب ڈالرز کے غیر ملکی کرنسی ذخائر تھے۔ اس کے باوجود کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ جولائی ، 2021 میں اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 17.8 ارب ڈالرز تھے۔ 6 ارب ڈالرز کے بہائو کے باوجود رواں مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں غیرملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ دی نیوز کے پاس موجود سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) میں سود سمیت غیرملکی قرضوں کی ادائیگی 3.78 ارب ڈالرز تھی۔ صورت حال سنگین اس لیے ہے کیوں کہ اب دسمبر سے جون تک 8.6 ارب ڈالرز غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوا تو اسٹیٹ بینک میں موجود پاکستان کے غیرملکی کرنسی ذخائر میں کمی سے بچنا بہت مشکل ہوگا۔ اس نمائندے نے اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) کے ترجمان کو سوال نامہ بھیج کر رواں مالی سال کے دوران 12.3 ارب ڈالرز سے زائد کی ادائیگی سے متعلق پوچھا تھا جب کہ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا سے رابطہ کرکے بیرونی شعبوں کے مسائل سے متعلق جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ صورت حال بہت مشکل ہوچکی ہے کیوں کہ ملک کی بیرونی فنانسنگ ضروریات مختصر مدت میں بڑھ کر 30 ارب ڈالرز ہوگئی ہیں۔ انہوں نے سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے بتایا جہاں ملک کے غیرملکی زرمبادلہ ذخائر 1 ارب ڈالرز کے قریب رہ گئے تھے لیکن اس کے قرضوں کی ادائیگی 7 سے 8 ارب ڈالرز سے زائد تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سری لنکا کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور عندیہ دیا ہے کہ چین سے مدد مانگیں گے کہ وہ قرض ادائیگی میں اس کی مدد کرے، بدلے میں وہ اپنی ایک بندرگاہ بیجنگ کے حوالے کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ غیر ملکی قرض واجبات سنگین صورت حال اختیار کرچکے ہیں کیوں کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں 8 ارب ڈالرز سے زائد کی ادائیگی کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی ادائیگی آئندہ مالی سال 2022-23 میں مزید بڑھے گی، جب کہ ملک انتخابی گہماگہمی میں مصروف ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 15 سے 16 ارب ڈالرز تک ہوسکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غیرملکی کرنسی ذخائر میں کمی ہونا شروع ہوجائے گی لہٰذا پاکستان کی معیشت پر ادائیگی کے توازن کا بحران منڈلا رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کو لازمی طور پر پاکستان کی غیرملکی مالی ضروریات سے متعلق متحرک رہنا ہوگا۔ ان ضروریات کو مختصر مدتی ، وسط مدتی اور طویل مدتی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 2022 کے لیے پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات ممکنہ طور پر 27 ارب ڈالرز سے تجاوز کرسکتی ہے۔ یہ تخمینہ اس بنیاد پر لگایا گیا ہے کہ چین کے محفوظ 4 ارب ڈالرز رول اوور ہوں گے۔ حکام کو یقینی بنانا ہوگا کہ خارجی فنڈنگ کے تخمینہ شدہ ذرائع ضرورت کے مطابق ہوں۔ ڈاکٹر خاقان نجیب نے کچھ مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ابتدائی چھ ماہ میں صرف 3.7 ارب ڈالرز رہی۔ جب کہ سالانہ واجبات کا تخمینہ 12.4 ارب ڈالرز ہے۔ اس لیے باقی ماندہ 8.7 ارب ڈالرز کی باقی ماندہ ادائیگی سے ملک کے ادائیگیوں کے توازن پر دبائو بڑھے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرونی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا آئی ایم ایف کا چھٹا جائزہ مکمل کرنے کی صلاحیت اہمیت کی حامل ہے تاکہ 1 ارب ڈالرز حاصل کیے جاسکیں اور دیگر قرض دینے والوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ آئی ایم ایف منظوری سے دیگر قرضہ فراہم کرنے والوں کا حوصلہ بھی بڑھے گا۔ اس کے علاوہ غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری بھی تخمینہ شدہ رقم کی بچت کے مطابق ضروری ہوگی۔ ہمیں لازمی طور پر یہ یاد رکھنا ہوگا کہ یہ تمام رقوم 27 ارب ڈالرز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لازم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بتاتا ہے کہ یہ ابتدائی توقعات سے زیادہ ہوچکا ہے۔ حکام نے ابتدائی تخمینہ جی ڈی پی کا 3 فیصد لگایا تھا، لیکن مالی سال 2022 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ ممکنہ طور پر جی ڈی پی کا 5 فیصد تک ہوسکتا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ روپے میں بھاری توازن اور دیگر اقدامات کے ذریعے حکام آنے والے دنوں میں بڑھتا خسارہ کم کرلیں گے۔ انہوں نے ادائیگی کے توازن کے لیے تین دیگر ایریاز کی نشان دہی بھی کی۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ترسیلات میں کمی آنا شروع ہوئی ہے کیوں کہ عالمی سطح پر لاک ڈائون میں کمی واقع ہوئی ہے۔ برینٹ آئل کی قیمتیں 84 ڈالرز فی بیرل سے تجاوز کرگئی تھی، جب کہ کچھ تجزیہ کاروں نے اس میں اضافے کے رجحان کی نشان دہی کی تھی۔ غذا اور متعلقہ اشیاء کی طلب میں اضافے سے درآمدی بل میں اضافہ جاری ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں 50 ہزار ٹن یوریا درآمد کی گئی۔ یہ تمام رجحان ملک کی ادائیگی کے توازن پر دبائو ڈال سکتے ہیں۔ جس کی حکومت کو بھرپور نگرانی کرنا چاہیئے اور اگر ضرورت پڑے تو بروقت اقدامات کرنا چاہیئے۔