سیاسی منظر نامہ، شاہراہ دستور کے ایوانوں میں کھلبلی سی مچ گئی

14 جنوری ، 2022

اسلام آباد ( طاہر خلیل) اشرافیائی جمہوریت کے گرما گرم ماحول میں مفادات کی جنگ گھر سے بیج چوراہے پر آنے سے شاہراہ دستور کے ایوانوں میں کھلبلی سی مچ گئی کہ کون کروٹ بدل کر آمنے سامنے آگیا کہ سحرو شام کی کشاکش تلخیوں سےبڑھ گئی ، سیاست کی تمام حقیقتوں کے باوجود ادب نواز ی اور کتاب دوستی کی کشش ترجیحات بدل دیتی ہے ، ایک جانب شاہراہ دستور پر اپوزیشن سراپااحتجاج تھی اور دوسری جانب اختیارات منتقلی کی شاندار روایات کو تازہ کیا گیا ، یہ تقریب سید طاہر شہباز شریف کی بطور وفاقی محتسب سبکدوشی اور اعجاز احمد قریشی کی نئے وفاقی محتسب کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے مرتب کی تھی جس میں ماہرین تعلیم ، دانشور ، قانون دان اور رائے عامہ کی شخصیات موجود تھیں ، 33 سال قبل قائم ہونیوالے اس ادارے نے جمہوری اور غیر جمہوری ادوار کے مد و جزر دیکھے ، کہا گیا کہ پہلی بار وفاقی محتسب کی تقرری میرٹ کی بنیاد پر کئی گئی اور اگر ہر ادارے میں میرٹ کے ایسے ہی معیار اور اصول اپنائے جائیں تو شاید محتسب ادارے کی چند اں ضرورت نہ رہے ، سبکدوش اور نئے وفاقی محتسب کی سب سے نمایاں اور منفرد مماثلت انکی کتاب دوستی ہے ، کہا جاتا ہے کہ جس کی دوستی کتاب سے ہو وہ کبھی تنہا نہیں ہوتا ،طاہر شہبا ز کے کام کا ایک سادہ تعارف تو یہ ہے کہ انہوں نے بطور وفاقی محتسب سال گزشتہ میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد شکایت کنند گان کے مسائل حل کئے جو گزشتہ 38 سالہ تاریخ میں ایک سال میں سب سے زیادہ شکایات پر فیصلے کئے یہ ادارے کی بڑی کامیابی ہے جسے ہر سطح پر سراہا گیا ، طاہر شہباز نے زندگی میں ایک ہی مشغلے کی پرورش کی کتابیں پڑھنا ، انکے پاس دنیا بھرکے کامیاب انسانوں کی کامیابیوں کی داستانوں کا قیمتی ذخیرہ ہے ، کتاب دوستی ، ادب دوستی اور انسان دوستی کی ایسی ہی قابل فخر روایات کی امانت نئے محتسب اعجاز احمد قریشی کے سپرد ہوئی ہے جن کے والد خود بھی صاحب کتاب رہے اور انہوں نے اردو ادب کوکئی قیمتی خزانے منتقل کئے ، خوش کن مرحلہ ہے کہ بیورو کریسی کے قد آور شخصیت سلمان فاروقی کے توسط سے انہوں نے گزشتہ 13 برس میں محتسب سیکرٹریٹ کے نظام میں جو اصلاحاتی عمل مکمل کیا اسکے بعد اعجاز قریشی کو ادارے کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں اسلئے کہ وہ ہر ادارے کی تمام رمزوں کے شناسائی ہیں محتسب سیکرٹریٹ کو اب کسی پیوند کاری کی ضرروت نہیں رہی ، اعجاز قریشی کا ہدف ہے کہ جیلوں میں قیدیوں خاص طور پر قیدی بچوں اور عورتوں کے حالات بدلنا چاہیں ، سپریم کورٹ کی ہدایات پر وفاقی محتسب پہلے ہی پولیس کلچر میں بہتری لانے اور اسے کمیونٹی ویلفیئر کا حقیقی ادارہ بنانے کیساتھ جیل ریفارمز کا مشکل فریضہ سونپا گیا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے 70 فیصد مسائل تھانہ کچہری سے وابستہ ہوتے ہیں اگر لوگوں کو انکی دہلیز پر انصاف مل جائے اور تھانے انسان دوستی کے مراکز میں بدل جائیں تو معاشرے میں پھیلی بیشتر محرومیوں اور نا انصافیوں سے ازالہ ممکن ہے۔