ممکن ہےPTIارکان استدعا کر یں استعفے کیوں قبول کئےگئے،تجزیہ کار

25 جنوری ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پی ٹی آئی کے مزید 43ارکا ن کے استعفے منظورہونے پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ اب پی ٹی آئی اراکین عدالت میں یہ استدعا کر یں کہ ہمارے استعفے کیوں قبول کیے گئے،سوال اٹھا یا کہ پچھلے ایک دن کے اندر ایسا کیا ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان اراکین کے استعفے قبول کرلیے،اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے جانے کی صورت میں اب تحریک انصاف ہائی کورٹ رجوع کر نے کا اختیار رکھتی ہے۔خصوصی نشریات میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر ،منیب فاروق اور سابق سیکریٹری الیکشن کمشنر کنور دلشادنے اظہار خیال کیا۔میزبان نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے مزید 43ارکا ن قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے ۔ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی نے 43ارکان کے استعفوں کی منظوری کی سمری الیکشن کمیشن کو بھجوا دی ، الیکشن کمیشن نے استعفے مو صول ہونے کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے 4مراحل میں منظور ہو ئے ہیں ۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پر ویز اشرف نے پہلے11اراکین کے استعفے منظور کیے تھے ،بعد ازاں اسپیکر نے دو مرا حل میں 35,35 استعفے منظور کیے جب کہ اب پی ٹی آئی کے اب مزید 43 اراکین کے استعفے منظور کیے ، جس کے بعد مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے اب تک 124اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جا چکے ہیں تاہم الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اب تک 81 اراکین کو Denotify کیا ہے۔اس کارروائی کے بعد ایوان میں اب صرف پی ٹی آئی کے منحرف اراکین موجود ہیں ۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ عمران خان یو ٹرن لیا کر تے ہیں لیکن اس دفعہ اسپیکر قومی اسمبلی جو پہلے باربا ر کہا کرتے تھے کہ تحریک انصاف کے اراکین ایوان میں واپسی اختیار کر یں ،اب انہوں نے یو ٹرن لے لیا ہے ۔تحریک انصاف کے اسمبلی میں واپسی کے اشارے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے تین مراحل میں ان کے استعفے قبول کر لیے ۔حامد میر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو وضا حت کرنی چاہیے کہ پہلے وہ کس بناء پر عدالت میں گئے کہ ان کے استعفے قبول نہیں کیے جا رہے ، جس کے لیے ان کی عدالت میں استدعاتھی کہ اسپیکر کوہمارے استعفے قبول کر نے کے لیے کہا جا ئے لہٰذا ممکن ہے کہ اب پی ٹی آئی اراکین عدالت میں یہ استدعا کر یں کہ ہمارے استعفے کیوں قبول کیے گئے۔حامد میر کا کہنا تھا کہ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ تحریک انصاف نے پہلے استعفیٰ دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر نہیں کیا تھا، اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اسمبلی میں دوبارہ جانے کے خواہشمند ہیں ۔حامد میر نے کہا کہ دوسری طرف اسپیکرقومی اسمبلی نے اگر چہ یو ٹرن لے کر حکومت کی سیاسی کمزوری کا اعتراف کیا ہے تاہم انہوں نے اس پہلو کو بھی نظر انداز کیا ہے کہ اگر ایک سو سے زائد اراکین اس ایوان کا حصہ نہیں ہیں تو اس میں کی جانے والی قانون ساز ی کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور سوالات کھڑے ہوں گے۔حامد میر نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا موجودہ اقدام سیاسی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ایک سوال پر تجزیہ کارحامد میر کا کہنا تھا کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے ، حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کے40سے45اراکین ہاؤس میں دوبارہ واپسی اختیار کر تے ہیں تو پہلے سے موجود جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کے ایم این ایزسے مل کر وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتمادکے ووٹ کے حصول کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں حامد میر کا کہنا تھا کہ سیاست کی بساط پر تینوں بڑی جماعتوں میں ملک کو موجودہ حالات کی نزاکت کا کوئی احساس نظر نہیں آ رہاجس کی وجہ سے تینوں سیاسی جما عتوں کے اندر اراکین کوما یوسی کا سامنا ہے اور ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اپنی قیادت کے خلاف اعلان بغاوت کریں۔ اس ساری صورتحال پر صحافی تجزیہ کار منیب فارو ق کا کہنا تھا کہ موجودہ استعفے قبول کیے جانے پر سوال اٹھ سکتا ہے چونکہ معاملہ عدالت میں موجود ہے ۔منیب فاروق نے سوال اٹھا یا کہ پچھلے ایک دن کے اندر ایسا کیا ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان اراکین کے استعفے قبول کرلیے، یقینی طور پر عدالت میں اس پر سوال بھی کیا جا سکتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کا یہ اقدام بادی انظر میں یہ ایک غیر قانونی کام ہے ۔چونکہ موجودہ استعفے قبول کیے جانے والے اراکین نے تحریری طور پر اسپیکر اسمبلی کو پیش کیا کہ ان کے استعفے قبول نہیں کیے جائیں اور ان اراکین نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ہاں پہنچنے کی کوشش بھی کی،وہ ایوان کے باہر بھی موجود رہے ۔منیب فاروق کا کہنا تھا اس بنا ء پر اسپیکر کا یہ قدم سیاسی ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشنر کنور دلشاد نے تحریک انصاف کے موجودہ قبول کیے جانے والے استعفوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آ رٹیکل64ے تحت جوں ہی اسپیکر قومی ، صوبائی اسمبلی یا چئیرمین سینیٹ کوئی استعفیٰ قبول کر تا ہے تو الیکشن کمیشن آف پا کستان فوری طور پر اسےDenotifyکرنے کا پابند ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جانے کی صورت میں اب تحریک انصاف ہائی کورٹ رجوع کر نے کا اختیار رکھتی ہے ۔ ہائیکورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم جا ری کر سکتی ہے کہ آپ فی الحال ا ن استعفوں کو قبول نہ کریں، یہ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔