عمران خان نے کس طرح پی ڈی ایم کو مضبوط کیا

25 جنوری ، 2023

اسلام آباد (تجزیہ،انصار عباسی) عمران خان نے اپنی سیاست کو عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج تک محدود کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کے ارکان کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے، اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی وجہ سے ان کے مخالفین کی بجائے عمران خان کو خود کو نقصان ہوا ہے۔ اس کے برعکس، عمران خان کے مخالفین ان کے ایسے فیصلوں کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں حالانکہ یہ فیصلے پی ڈی ایم کی حکومت کو کمزور کرنے اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیے گئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آنے والی پی ٹی آئی نے خود کو قومی اسمبلی سے نکال باہر کر دیا ہے۔ اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی ارکان نے استعفوں کا اعلان کیا تاکہ پی ڈی ایم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر جلد الیکشن کرائے جا سکیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے فوری طور پر استعفے قبول نہیں کیے اور اس میں اس وقت تک تاخیر کی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ استعفے واپس لے کر پارٹی کی طاقت کو قومی اسمبلی میں استعمال کرکے شہباز شریف کی حکومت کو گرایا جائے گا اور اس کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے گا یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی۔ تاہم، پی ڈی ایم نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانے سے محروم کر دیا اور پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کرلیے۔ اب اپوزیشن حکومت کی حامی بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے ارکان ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں، اور اب پی ڈی ایم حکومت کیلئے ایوان میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اب شہباز شریف کیلئے عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے مرکز میں اپنے مخالفین کو مضبوط کرنے کے ساتھ کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے اپنی سیاسی اور انتظامی اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا جس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوا۔ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی۔ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے پنجاب کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہم رہا ہے۔ لیکن عمران خان نے خود ہی صوبہ پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جہاں پی ڈی ایم کے من پسند شخص محسن نقوی اب نگران وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ عمران خان نے محسن نقوی پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے نقوی کو پی ٹی آئی کا دشمن قرار دیا۔ اب عمران خان کو ڈر ہے کہ نقوی کے ذریعے پی ٹی آئی کو صوبے میں نشانہ بنایا جائے گا۔ نقوی کے تقرر کیخلاف عمران خان نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی کی زیر قیادت ق لیگ نے اس تقرر کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان نے سوچا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے ان کے فیصلے سے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی لیکن ان کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ سڑکوں پر دھرنے دینے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان کے تمام سیاسی اقدامات (اجتماعی استعفوں سے لیکر لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک) کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ پورا کرانا تھا۔ تاہم، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست تصادم (پہلے جنرل باجوہ کے ساتھ اور اس کے بعد موجودہ آرمی چیف کے ساتھ) کی وجہ سے عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کا نام ملکی سیاست سے اب حذف ہونے لگا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بھی عمران خان کیلئے ایک نقصان ہی ہے اور اس کا بڑا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا جو یہی چاہے گی کہ یہ تصادم جاری رہے اور وہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے رہیں۔ الیکشن کمیشن بھی عمران خان کیلئے دشمن بنا ہوا ہے کیونکہ عمران خان کسی بھی سیاسی مخالف سے بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ وہ جلد الیکشن چاہتے ہیں، نئے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب عام انتخابات ہوں تو مرکز میں ان کی پسند کا نگران سیٹ اپ آئے۔ تاہم، گزشتہ عام انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایک اہم اسٹیک ہولڈر بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے تمام تر قانونی آپشنز اور سیاسی معاملات میں پی ڈی ایم کے آگے شکست خوردہ ہو چکی ہے۔