آئی ایم ایف اور قومی معیشت

اداریہ
29 جنوری ، 2023

وزیراعظم نے قوم کو خوش خبری سنائی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اسی ماہ ہوجانے کی پوری امید ہے جس کے بعد ہم موجودہ مشکلات سے نکل آئیں گے۔ خدا کرے وزیر اعظم کی یہ پرُا میدی حقیقت بن جائے لیکن آج ہماری معیشت جس طرح مکمل طور پر عالمی مالیاتی ادارے کی دست نگر ہے، اس صورت حال سے مستقل بنیادوں پر نجات کیلئے ناگزیر ہے کہ قومی پالیسیاں وقت گزاری کی خاطر تشکیل نہ دی جائیں ، ان کا انحصار وزرائے خزانہ کے آنے اور جانے پر نہ ہو۔ ہر کہ آمدعمارت نو ساخت کے مصداق ٹیم کے ہر نئے سربراہ کے ساتھ معاشی حکمت عملی تبدیل نہ ہوتی رہے۔ اس بارے میں فیصلے انفرادی پسند و ناپسند کے بجائے اجتماعی دانش سے استفادہ کرتے ہوئے وسیع تر مشاورت کے ذریعے سے کیے جائیں تاکہ انہیں پائیداری و استحکام حاصل ہو اور مقامی و عالمی سطح پروہ قابل اعتبار قرار پائیں۔ تاہم معاشی فیصلوں کے لیے وسیع تر مشاورت تو دور کی بات ہے، اس وقت تو حکومت کے سابق اور موجودہ وزیر خزانہ کے درمیان معاشی پالیسی کے ضمن میں اختلافات ذرائع ابلاغ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں آئی ایم ایف سے متوقع معاہدے کے نتائج کے حوالے سے جو خوش امیدی ظاہر کی ہے ،سابق وزیر خزانہ کے دور میں بھی معاہدے کی صورت میں ان ہی توقعات کا اظہار کیا گیا تھا کہ اب ہم معاشی مشکلات سے نکل آئیں گے، دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں سے بڑے پیمانے پر مالی تعاون حاصل ہوگا، سی پیک منصوبہ تحریک انصاف کے دور میں جس سست روی کا شکار ہوگیا تھا، وہ ختم ہوجائے گی اور حکومت چین ازسرنو پہلے کی طرح سرگرمی اور گرم جوشی کا مظاہرہ کرے گی مگر آئی ایم ایف سے پچھلے سال معاہدے کے بعد اگست کی آخری تاریخ کو ایک ارب سولہ کروڑ روپے کی قسط مل جانے کے باوجود ملک کے مشکلات سے نکل آنے کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور آج پانچ ماہ بعد ملک پہلے سے زیادہ معاشی ابتری کا شکار ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس پونے چار ارب ڈالر سے بھی کم باقی رہ گئے ہیں۔ درآمدات کے لیے ایل سی کا کھلنا محال ہوگیا ہے۔ چنانچہ وزیر اعظم نے گرین لائن ٹرین کے افتتاحی خطاب میں وضاحت کی ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال دیکھ کر ہم نے ترجیحات مقرر کی ہیں جس میں خوراک اورادویات کی درآمد کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ آج دوست ممالک بھی عالمی ادارے سے معاہدے اور ہماری معاشی پالیسیوں میں مطلوبہ اصلاحات کے بغیر تعاون سے گریزاں ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقوں سے کم رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے اور جن کے نتیجے میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ ڈالر کی قدر دو سو روپے سے بھی نیچے آجائے گی، ان کے منفی نتائج سامنے آئے ۔بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے کے استعمال کا رجحان بڑھا جو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا ایک بڑا سبب ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے مالیاتی ادارے کی شرائط پر عمل درآمد کے بغیر معاہدے کی جو کوششیں کی تھیں وہ کامیاب نہیں ہوئیں اور وزیر اعظم کو چند روز پہلے کہنا پڑا کہ ہم آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے کو تیار ہیں۔ تاہم اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا ایک نیا سیلاب یقینی ہے۔ وزیر اعظم نے ان حالات سے نکلنے کا یہ بالکل درست راستہ بتایا ہے کہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں، ہم کب تک دوسروں کے سہارے چلیں گے، ایثار اور قربانی سے کام لے کر خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ بلاشبہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالی اداروں کی محتاجی سے نجات کا راستہ یہی ہے لیکن اس کے لیے خود حکمرانوں اور مراعات یافتہ اشرافیہ کو ایثار و قربانی کا ثبوت دینا چاہیے‘ فاقہ کشی تک جاپہنچنے والے عوام الناس سے یہ مطالبہ نہیں کیا جانا چاہئے۔