اسمارٹ فون: اجتماعی ہلاکت خیز ہتھیار

محمود شام
29 جنوری ، 2023
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوئوں اور دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور خیالات کے تبادلے کا دن۔ ہم تو اپنی زندگی بحرانوں، اذیتوں، صعوبتوں، ہنگاموں اور بے یقینیوں میں گزار چکے۔اب اس قریۂ سفاک میں ہماری اولادوں کو اپنی زندگیاں گزارنا ہیں۔ انہیں تو احساس ہے کہ ان کے لئے آئندہ ماہ و سال کیا قیامتیں لے کر آرہے ہیں۔ ہمیں اپنے تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے انہیں اعتمادمیں لینا ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
2023 کے جنوری فروری میں بظاہر تو ہماری نسلوں کے سامنے 13جماعتی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (pdm)اور پی ٹی آئی کے درمیان شدت کا تصادم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو جتنا خوار کرسکتے ہیں کررہے ہیں۔ یہ تو ظاہری مناظر ہیں۔ لیکن اس محاذ آرائی سے اکثریت کے ذہنوں میں ملک کے مختلف حصّوں میں اپنے اپنے لسانی، نسلی، سماجی اور فرقہ وارانہ تناظر میں جو تہ نشیں طوفان صورت پذیر ہورہے ہیں۔ وہ بہت خطرناک ہیں جو ہماری روایات کی شکست و ریخت بڑی تیزی سے کررہے ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کو اب یہاں فوجیں اتارنے کی زحمت نہیں کرنا پڑی۔ نہ ہیلی کاپٹروں سے کمانڈو موج در موج بھیجنے پڑے ہیں۔ نہ کوئی میزائل داغنے پڑ رہے ہیں۔ان کی یلغارگھرگھر ہورہی ہے۔ یہ اسمارٹ موبائل فون سب سے ہلاکت خیز ہتھیار بن گیا ہے۔ ہم جس آزادیٔ اظہار کو نجات کی راہ خیال کرتے رہے ہیں۔ جن انسانی حقوق کی علم برداری کو انقلاب سمجھتے رہے ہیں۔ اسے دشمن بااندازِ دگر استعمال کررہا ہے۔ ہمارے ڈولتے جہاز کو دشمن کی آبدوزیں تارپیڈو مارنےکے در پے ہیں۔ ہماری دینی میراث بھی ڈگمگارہی ہے۔ دنیاوی ورثہ بھی لٹ رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہم وطن۔ ہم مذہب ایک طرف اس وہم میںہیں کہ وہ اپنے خیالات کا آزادی سے اظہار کرپارہے ہیں۔ اس کے لئے انہیں ایک موثر وسیلہ مل گیا ہے۔ لیکن وہ کیسی آڈیوز دے رہے ہیں۔ کیسی وڈیوز بناکر پوسٹ کررہے ہیں۔ میں تو کانپ گیا ہوں۔ ذہن مائوف ہورہا ہے۔ سر سے پائوں تک کپکپی طاری ہے۔ ہم اس حد تک گر سکتے ہیں۔ اپنے خالق و مالک سے برگشتہ ہوسکتے ہیں۔ محسن انسانیت پیغمبرآخر الزماں حضرت محمد ﷺکی عظمت سے بیگانہ ہوسکتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے احترام سے انکاری ہوسکتے ہیں۔ امہات المومنین کی حرمت کے تارک ہوسکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں رحیم و کریم اور غفار و ستار کے سامنے سجدہ ریز ہوکر التجا کرنا چاہوں گا کہ وہ ہم پر اپنی بیکراں رحمتیں نازل کرے۔ ہمارے عیوب کو چھپا لے، اس بے راہ روی اور گستاخی کے جو بھی ذمہ دار ہیں۔ دانستہ یا نا دانستہ،ان پر اپنا قہر نازل کرے۔ اے کبیر و قدیر ہمیں جہنم کی آگ کا ایندھن بننے کی روش سے محفوظ رکھ۔ اس قوم میں یہ احساس پختہ کر کہ ہمارے کچھ ہم مذہب، ہم وطن جن نفسیاتی، جنسی وحشتوں میں تلذذ حاصل کررہے ہیں، وہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ ایسے بے سمت معاشرے پھر ایسے ہی خوفناک بحرانوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ جن سے ہم ان دنوں گزر رہے ہیں۔
علامہ اقبال نے اسی لئے یہ حقیقت بیان کی تھی۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
ہمارے ایمان متزلزل کئے جارہے ہیں۔ ہمارے اعتقادات چھینے جارہے ہیں۔
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
سوشل میڈیا پر حکومتی پابندیوں پر ہمارے جو حلقے احتجاج کرتے ہیں۔ وہ یقینا اس فتنہ گری سے بے خبر ہیں۔ جو ایک منظم انداز سے کی جارہی ہے۔ ہم سویڈن، نیدرلینڈ ،فرانس اور دوسرے ملکوں میں غیر مسلموں کی ہرزہ سرائی کی مذمت کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں، ہمارے اپنے ہم وطن ،ہم مذہب نہ جانے کن اسباب کی بنا پر ان گستاخیوں میں استعمال ہورہےہیں۔ ان بد بختوں کو یہ اندازہ کیوں نہیں ہے کہ وہ سخت گمراہی میںمبتلا ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا پر یہ بیہودہ گستاخیاں ویڈیوز کی صورت ڈال کر دوسروںکو بھی اس گناہ کبیرہ میںشریک جرم کررہے ہیں۔اس پر عدالتی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ جن مجسٹریٹوں کو، وکیلوں کو یہ ویڈیوز دیکھنے کی پیشہ ورانہ مجبوری سے گزرنا پڑرہا ہے۔ وہ سب کے سامنے گڑگڑاکر رورہے ہیں کہ ہم بدنصیبی کی کس پستی میں پہنچ گئے ہیں۔ ذیلی عدالتیں سخت سزائیں بھی دے رہی ہیں۔ ان سزائوں سے یہ ایمان دشمن سلسلہ کس حد تک رک سکتا ہے۔ یہ جائزہ لینا چاہئے۔ لیکن ہمارے نفسیاتی ماہرین کو ،سنجیدہ علمائے کرام کو، ماہرین قانون کو، اساتذہ اور یونیورسٹیوں کو سوچ سمجھ کر ایک جامع تدارکی نظام قائم کرنا ہوگا۔ یونیورسٹیوں میں ہی نہیں دینی مدارس میں بھی یہ بجلیاں کوند رہی ہیں۔ ایسے اجتماعات۔ ورکشاپس۔ سیمینارز کی ضرورت ہے۔ اجتماعی توبہ کی مجالس منعقد کی جائیں۔ یہ آزادیٔ اظہار کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک فتنہ ہے جوکسی نہ کسی پشت پناہی سے باقاعدہ منظم انداز میں بھڑکایا جارہا ہے۔ اب تک تحقیق کرنے والوں کی دریافت یہ ہے کہ اس کا آغاز عام فحش ویڈیوز سے ہوتا ہے۔ صرف نوجوان ہی نہیں بزرگ بھی اس لذت میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ عام خواتین مردوں کی ویڈیوز کے بعد اہم سماجی سیاسی اور علمی شخصیتوں کی برہنہ ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں۔ پھر یہی شیطانی راستہ مقدس ہستیوں کی ویڈیو بنانے تک لے جاتا ہے۔ ہمارا سماج سالہا سال سے نا انصافی۔ تہی دستی اور بے بسی کا شکار ہے۔ ایسی وڈیوز سے اسے یہ خبط لاحق ہوجاتا ہے کہ ہم طاقتوروں کو سب کے سامنے بے لباس کررہے ہیں۔
مجھ گنہ گار میں ہمت نہیں ہے کہ اس سے زیادہ اس فتنے کی تفصیل یہاں بیان کرسکوں۔ آزادیٔ اظہار کی تنظیمیں، اخلاقیات کے فروغ کی انجمنیں، قوانین کے ماہرین، والدین، وائس چانسلرز، دینی مدارس کے مہتمم، میڈیا مالکان سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اس التجا کی ضرورت کہ وہ ہمارے بیٹے بیٹیوں، پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں ،بہوئوں، دامادوں کو ایسی ویڈیوز سے محفوظ رکھے۔ ایف آئی اے سائبر ڈویژن کے متعلقہ افسران نے انکشاف کیا ہے کہ ایسے بد بخت اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو ایسی ویڈیوز کی آلودگی اور پھیلائو میں ملوث ہو رہے ہیں۔