اسلام آباد (انصار عباسی) گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے صوبے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کی بظاہر وجہ آئینی ابہام ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب اس وقت قانونی اور آئینی پوزیشن کا جائزہ لے رہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ آئندہ ہفتے کے اوائل تک اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ ان ذرائع نے کہا کہ اگر وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار ہے تو وہ ایسا کریں گے۔ بصورت دیگر وہ اس معاملے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجیں گے۔ آئینی ابہام کا حوالہ دیتے ہوئے ان ذرائع نے وضاحت کی کہ اگر گورنر اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیر اعلیٰ کے مشورے پر دستخط کرتے ہیں تو پھر آئین تصور کرتا ہے کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دیں گے۔ تاہم اگر گورنر اس مشورے پر دستخط نہیں کرتے اور 48 گھنٹوں کے بعد اسمبلی کو تحلیل کرنے دیتے ہیں تو پھر اس معاملے میں آئین ایسا نہیں کہتا کہ گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ یہ ذرائع آرٹیکل 105(3) کا حوالہ دیتے ہیں، جو اس طرح پڑھا جاتا ہے: جہاں گورنر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے، شق (1) میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، تو وہ (الف) اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے، تحلیل کی تاریخ سے نوے دن کے اندر اندر ایک تاریخ مقرر کرے گا؛ اور (ب) نگران کابینہ کا تقرر کرے گا۔ دلیل دی جاتی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے معاملے میں موجودہ گورنر نے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے مشورے پر اسمبلی تحلیل نہیں کی۔ تاہم پنجاب اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہو گئی جیسا کہ آئین میں تصور کیا گیا ہے۔ بالکل 48 گھنٹے بعد چیف سیکرٹری پنجاب نے پنجاب کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس نوٹیفکیشن کی بنیاد پر گورنر پنجاب نے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل شروع کیا۔کچھ دن پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اپنے اپنے صوبوں میں انتخابات کی تاریخوں کے لیے پنجاب اور کے پی کے گورنرز سے باضابطہ رابطہ کیا۔ کمیشن نے دونوں گورنروں کو انتخابات کی تاریخیں بھی تجویز کی ہیں۔ گورنر پنجاب نے آئینی ابہام کی وجہ سے ابھی تک پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں بتائی جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ پیر کو توقع ہے کہ گورنر پنجاب اس معاملے پر فیصلہ کریں گے اور اگر وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انہیں انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے تو وہ ایسا کریں گے۔ بصورت دیگر وہ یہ معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیں گے۔ کے پی کے معاملے میں گورنر غلام علی نے حال ہی میں وہاں انتخابات میں تاخیر کا اشارہ دیا تھا اور تازہ انتخابات کو وہاں کی معاشی صورتحال اور امن و امان کی بہتری سے جوڑ دیا تھا۔ انہوں نے تجویز دی کہ سیاسی قوتوں کو انتخابات پر نہیں بلکہ مالیاتی اور سیکورٹی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے حل تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ کے پی کے گورنر نے یہ بھی کہا کہ 400 قبائلی عمائدین نے درخواست کی ہے کہ تین چار ماہ بعد الیکشن نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان عمائدین نے انتخابات سے قبل تازہ مردم شماری کا مطالبہ کیا۔
کوئٹہگورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا صوبہ بلوچستان اکثر قدرتی آفات جیسے زلزلہ،...
کراچی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی بڑھکوں سے بانی پی ٹی آئی...
کوئٹہبلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیرزراعت حاجی علی مدد جتک اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن میر اسد...
اسلام آباد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رہنما مسلم لیگ رانا ثنا اللہ کے بیان کی تردید کرتے ہوئے ایکسٹینشن...
کوئٹہبلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کامران ملاخیل اور جسٹس شوکت علی رخشانی پر مشتمل بینچ نے گیس بلوں سے...
اسلام آبادوفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اخراجات کم اور ریونیو بڑھانے سے بھی معیشت...
اسلام آبادسپریم کورٹ میں 13 ستمبرکو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن پاکستان کااجلاس...
کوئٹہوزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ معاشرہ تب تک تبدیل نہیں ہوگا جب تک ہماری خواتین پڑھ لکھ...