آسٹریلیا میں بھنڈرانوالہ کے پوسٹر پھاڑنے پر سکھ کمیونٹی میں غم وغصہ اور اشتعال

29 جنوری ، 2023

میلبورن (مرتضیٰ علی شاہ) آسٹریلیا میں 29جنوری کو فیڈریشن اسکوائر پر خالصتان کے موضوع پر ہونے والے سکھ فار جسٹس کے زیر اہتمام ریفرنڈم میں ووٹنگ سے پہلے خالصتان کی حمایت میں لگائے جانے والے بینر اور شہید بھنڈرانوالہ کے پوسٹر پھاڑنے پر سکھ کمیونٹی میں غم وغصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق خالصتان ریفرنڈم کے حق میں لگائے جانے والے بینرز اور سکھوں کی مقبول شخصیات کی تصاویر والے پوسٹرز پر مختلف حملے ہوئے ہیں۔ سکھ کمپینرز نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی حکومت خالصتان ریفرنڈم اور سکھوں کی مقبول شخصیات کے پوسٹر ز پر حملوں کی سرپرستی کررہی ہے تاکہ گڑ بڑ پر اکسایا جاسکے۔ بھارتی ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ البرٹ پارک میلبورن میں ISKCON ہرے کرشنا مندر پر ہندو مخالف نعرے اور ہندوستان مردہ باد، سنت بھنڈرانوالہ شہید ہیں اور خالصتان زندہ باد لکھ کر اس کی شکل بگاڑی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ کیرم ڈائونز میں شری وشنو مندر اور مل پارک میں شری سوامی نرائن مندر پر بھی اسی طرح کے حملے کئے گئے۔سکھ فار جسٹس جنر ل کونسل کے گرپتونت سنگھ کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ غنڈہ گردی کے حالیہ واقعات کا خالصتان ریفرنڈم سے کوئی تعلق ہے۔ سکھ رہنما نے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کئے ہیں، جن میں میلبورن کے علاقے میں خالصتان کے بینرز کے ساتھ غندہ گردی کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ اس ریفرنڈم سے ہمارا مقصد خالصتان کے سوال پر سکھوں کی خواہشات کا تعین کرنا اور بھارتی حکومت کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ خالصتان کا مطالبہ غیر مقبول ہے اور سکھوں کا ایک بہت چھوٹا سا طبقہ اس کا مطالبہ کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ریفرنڈم کے ذریعہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ خالصتان ایک سیاسی رائے ہے دہشت گردی نہیں ہے اور خالصتان کا مطالبہ پر امن اور جمہوری طریقے سے ریفرنڈم کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ پنون نے کہا کہ بھارتی مظالم کی وجہ سے بڑی تعداد میں سکھوں کو اپنا وطن چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت باقاعدگی کے ساتھ بھارتی کمیونٹیز کی توجہ خالصتان کی جانب سے ہٹانے کیلئے مختلف حربے اختیار کرتی رہتی ہے۔ نیویارک میں مقیم اٹارنی اور کمپینر نے کہا کہ پنجاب کی آزادی کے ریفرنڈم کو اکتوبر 1984 میں اس وقت کی بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی پر چڑھائے جانے والے ستونت سنگھ اور کیہر سنگھ کا نام دیا گیا۔ گرپت ونت سنگھ پنون نے کہا کہ سکھ فار جسٹس کا مقصد پوری دنیا میں کرائی جانے ووٹنگ کے نتائج کو اقوام متحدہ کو سکھوں کی علیحدہ ریاست خالصتان کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی حکومت سکھوں میں ووٹنگ کے پرامن عمل میں شریک ہونے سے روکنے کیلئے آسٹریلیا کے شہر میں سکھوں پر حملے کرا رہی ہے۔ جاری کی جانے والی ویڈیوز میں نظر آرہا ہے کہ لوگ شہید بھنڈرانوالہ اور خالصتان کے پوسٹرز کو غنڈہ گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پنون نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے سب سے بہتر ہونے کے دعویدار ہندو، جن کو مودی حکومت کی آشیر واد حاصل ہےم شہید بھنڈرانوالہ اور خالصتا ن ریفرنڈم کے بینرز کو غنڈو گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کی مقدس ہستیوں کو غنڈہ گردی کا نشانہ بنانے میں ملوث افراد کا تعلق انتہا پسند ہندو توا گروپ سے ہے، جسے بھارت کی حمایت حاصل ہے، یہ بھارتی حکومت خالصتان کے حامی سکھوں کو دہشت گرد قرار دینے کی پرانی دہشت گردی کی حکمت عملی پر عمل کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مودی اور آسٹریلیا میں موجود ہندوئوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ 1990 نہیں ہے کہ تم خالصتان کے حامی سکھوں کو دہشت گرد قرار دے دو گے اور وہ گھر چلے جائیں گے۔ آسٹریلیا میں یہ ہندو قوم پرست ان لوگوں کی اولادیں ہیں، جنھوں نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا اور جنھوں نے اندرا گاندھی کی جانب سے گولڈن ٹیمپل پر حملے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، یہ لوگ انتہا پسند ہندو توا عناصر کے بچے ہیں۔ سکھ فار جسٹس بیلٹ پر یقین رکھتی ہے، بولٹ پر نہیں، اس کے برعکس بھارتی حکومت نے سکھوں کو خاموش کرنے کیلئے بم اور بولٹ استعمال کئے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی حکومت سن لو کہ تم کینیڈا میں ناکام ہوئے اور اب آسٹریلیا میں بھی ناکام ہوگئے۔ مقامی طورپر 3 ماہ سے ٹینشن اس وقت سے چل رہا ہے جب میلبورن میں بینر لگائے گئے اور 15 جنوری کو ستونت سنگھ اور کیہر سنگھ کے یوم شہادت پر ایک کار ریلی نکالی گئی، بھارت سے ترک وطن کر کے آسٹریلیا آ نے والے ہزاروں سکھ گزشتہ 2 ماہ سے خالصتان ریفرنڈم کی مہم دیکھ رہے تھے اور انھوں نے متعدد تقاریب منعقد کیں، جن میں ہزاروں سکھوں نے شرکت کی اور بھارت میں سکھوں کی علیحدہ ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔