نیشنل ڈائیلاگ ضروری، بار تعاون کرنے کیلئے تیار ہے،عابدزبیری

02 فروری ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ ضروری ہوگئے ہیں اس کیلئے سپریم کورٹ بار تعاون کرنے کیلئے تیار ہےانتخابات کا التواء آئین کی خلاف ورزی ہوگا، آئین کے مطابق انتخابات کی تاریخ گورنر نے دینی ہے، دہشتگردی کے مجرموں کو صدر بھی معافی نہیں دے سکتا، عمران خان کو بیک وقت 33نشستوں پر الیکشن لڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سینیٹر کامران مرتضیٰ اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سینیٹر علی ظفر بھی شریک تھے۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں، پشاور کی ایک مسجد میں اتنے لوگ مرگئے جتنے کسی جنگ میں بھی نہیں مرتے ہیں، پارلیمنٹ کی اوقات نہیں کہ ان پالیسیوں پر بحث کرے،فواد چوہدری کی رہائی اور علی وزیر کو رہا نہ کرنا ڈومیسائل کا فرق ہے۔سینیٹر علی ظفرنے کہا کہ آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90دن میں انتخابات لازمی ہیں، انتخابات میں 90دن سے ایک گھنٹہ بھی زیادہ تاخیر نہیں ہوسکتی ،عمران خان 33نشستوں پر ضمنی انتخابات صرف اپنی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے لڑرہے ہیں، کشن گنگا ڈیم پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات ہمارے لیے کیس آف دا سنچری ہے۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا التواء آئین کی خلاف ورزی ہوگا، آئین کے آرٹیکل 105کے مطابق انتخابات کی تاریخ گورنر نے دینی ہے، گورنر کا انتخابات کی تاریخ دینے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈالنا حیران کن ہے، انتخابات کے التواء کیلئے حالات کی خرابی کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ عابد زبیری کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت صدر کسی مجرم کو معافی دے سکتا ہے، دہشتگردی کے مجرموں کو صدر بھی معافی نہیں دے سکتا، تحقیقات ہونی چاہئے سزایافتہ دہشتگردوں کو چھوڑنے کیلئے صدر کو ایڈوائس کیوں دی گئی، عمران خان کو بیک وقت 33نشستوں پر الیکشن لڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا، عمران خان الیکشن جیتنے کے بعد حلف نہیں اٹھاتے تو اس کے نتائج دیکھنا ہوں گے، نیشنل ڈائیلاگ ضروری ہوگئے ہیں اس کیلئے سپریم کورٹ بار تعاون کرنے کیلئے تیار ہے۔ عابد زبیری نے کہا کہ علی وزیر کی ہائیکورٹس سے ضمانت ہوچکی ہے تو انہیں جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں، جے یو آئی ف الیکشن ملتوی کروانا نہیں چاہتی ہے، گورنر خیبرپختونخوا نے اسمبلی توڑی تھی انہیں اسی وقت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیناچاہئے تھا، گورنر خیبرپختونخوا نے تاریخ دینے کا اپنا اختیار الیکشن کمیشن کو سرینڈر کردیا ہے، صوبائی انتخابات 90دن میں ہونے چاہئیں اس کیلئے بیٹھنا پڑے گا، بینظیر بھٹو کی شہاد ت پر بھی انتخابات 35دن آگے کردیئے گئے تھے۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ سزا یافتہ دہشتگردوں کو رہا کرنے کی وجہ سے دہشتگردی بڑھ جائے تو دکھ کی بات ہے، پشاور کی ایک مسجد میں اتنے لوگ مرگئے جتنے کسی جنگ میں بھی نہیں مرتے ہیں، پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جو اپنے شہریوں کی قیمت پر دوسروں کو اکاموڈیٹ کرتا ہے، پارلیمنٹ کی اوقات نہیں کہ ان پالیسیوں پر بحث کرے۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ قانونی طور پر عمران خان کو بیک وقت 33نشستوں پر الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا، معیشت اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے، فواد چوہدری کی رہائی اور علی وزیر کو ضمانتوں کے باوجود رہا نہ کرنا ڈومیسائل کا فرق ہے، یہاں سندھ والوں کو پھانسی دیدی جاتی ہے پنجاب والوں کو کچھ نہیں کرسکتے، میں مانتا ہوں ایک بے اختیار پارلیمنٹ کا رکن ہوں۔سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سینیٹر علی ظفرنے کہا کہ آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90دن میں انتخابات لازمی ہیں، انتخابات میں 90دن سے ایک گھنٹہ بھی زیادہ تاخیر نہیں ہوسکتی ہے، صرف جنگ یا کسی بڑی سول وار کے نتیجے میں انتخابات میں ملتوی ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے آئین کسی کام کی مدت کا تعین کردے تو کوئی ادارہ تاخیر نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن، صدر یا گورنر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتا تو عدالت خود تاریخ کا اعلان کرسکتی ہے۔سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ صدراور وزیراعظم سزا یافتہ دہشتگردوں کو معافی دیتے ہیں تو وجوہات ضرورت بتانا پڑیں گی، دہشتگردی کیخلاف پالیسی پر پارلیمنٹرینز کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار اد ا کرنا ہوگا، افغانستان سے متعلق ہماری پالیسی میں تسلسل نہیں رہا ہے۔ سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان 33نشستوں پر ضمنی انتخابات صرف اپنی مقبولیت ثابت کرنے کیلئے لڑرہے ہیں، پارلیمنٹ کو دہشتگردی سے متعلق طویل مدتی پالیسی بنانا پڑے گی، کشن گنگا ڈیم پر انڈیا کے ساتھ مذاکرات ہمارے لیے کیس آف دا سنچری ہے، یہ معاملہ واٹر بم ہے اس میں ناکام ہوئے تو پاکستان کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے، کشن گنگا ڈیم کیس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کوا یک صفحہ پر ہونا چاہئے، ایک سیاسی جماعت کے لیڈرز کو گرفتار کیا جاتا رہے گا تو سیاسی ایشوز پرا تفاق نہیں ہوسکتا۔