مقبوضہ کشمیر دنیا کی نظرمیں !

حنیف خالد
05 فروری ، 2023
بھارت کی تمام تر ناکام کوششوں اور ڈراموں کے باوجود دنیا بخوبی جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری و ساری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی تاریخ کا بدترین محاصرہ 1279دنوں سے جاری ہے۔ آج دنیا کے ایوانوں میں کشمیری عوام کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں آواز اٹھائی۔ برطانوی پارلیمان کے ارکان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل عام اور عورتوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی بھی بھر پور مذمت کی۔ معزز اراکین نے کہا کہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے کشمیری ایک جہنم میں رہ رہے ہیں اور آج حق خودارادیت تو درکنار ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کشمیر 7دہائیوں سے مسلسل زیرِ عتاب ہے۔ بھارت اب تک 96ہزار سے زائد کشمیریوں کو قتل عام کر چکا ہے۔ تقریباََ23ہزار عورتوں کو بیوہ،ایک لاکھ 7ہزار سے زائدبچوں کو یتیم جبکہ11ہزار سے زائد عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ دنیا بارہا بھارت کے اس بے بنیاد دعوے کو مسترد کر چکی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندورنی معاملہ ہے۔ ای۔یو ڈس انفو لیب کی چشم کشا رپورٹ نے بھارت کے عالمگیر پروپیگنڈے کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ آج جب مغربی دارالحکومتوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے اور کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کی مسلسل پامالی کے خلاف مزید زوردار اور مؤثر آوازیں اٹھیں گی۔ اتنے عشروں بعد سکیورٹی کونسل میں کشمیر دو بارہ زیر بحث ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے نتائج خطے اور دنیا کیلئے بے حد تباہ کن ہونگے۔ اگست 2019ء سے اب تک عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدامات کی مذمت کرتا آ رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کوindia's dark moment in kashmir قرار دیا۔ دی گارڈین نے اسے کشمیر کو انڈین کالونی بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ ان کے علاوہ بی بی سی، فرانس 24، dw نیوز، trt ورلڈ، cnbc سمیت مختلف خبر رساں اداروں نے کشمیر کی فقید المثال کوریج کی۔ اس کے علاوہ genocide watch اور human rights watch کی کشمیر میں جاری نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹیں بھی ناقابلِ تردید دستاویزات ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی چینل نے بھارتی فوج کے ہاتھوں بیدردی سے شہید کئے گئے تین نوجوان طلباء کے لواحقین کی آہیں دنیا کو سنوائیں کہ جن کو ان معصوموں کی میتیں بھی نہیں دی گئیں۔ بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسکے علاوہ16یورپین پارلیمنٹ ممبران نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر یورپین اعلیٰ نمائندے کو خط لکھا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر کشمیری رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کا نقطہ نظر۔ دُنیا بار ہا بھارت کے اس بے بنیاد دعوے کو مسترد کر چکی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کے اپنے اپوزیشن لیڈر آرٹیکل370کی منسوخی کو آئین پر حملہ، تباہ کُن اور بھارتی ریاستی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دے چکے ہیں۔ بھارت کے اس اقدام سے کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر اُبھر کر سامنے آیا۔ بھارتی اقدامات اقوامِ متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جموں وکشمیر پیلپز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آپ ایک خیال کو قید نہیں کر سکتے بلکہ ایک اچھے خیال کا مقابلہ صرف ایک بہتر خیال ہی کرسکتا ہے۔ جب اختلاف رائے کے حق کو زبردستی کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگوں کو دیوار سے لگائے جانے کا احساس ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مزید اختلاف اور بیگانگی بڑھتی ہے۔محبوبہ مفتی۔ کشمیری رہنماعمر عبداللہ نے کہا کہ مُودی کے اقدامات ہمارے وطن کو ہندو وطن ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہ بھارتی آئین کے سراسر منافی ہے۔ ہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کروائیں گے۔ اب کشمیر اور پنجاب سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں آزادی کے نعرے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج دُنیا کے ایوانوں میں کشمیری عوام کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اگست 2019سے اب تک عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدامات کی مذمت کرتا آرہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹو نیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے نتائج خطے اور دُنیا کیلئے بے حد تباہ کن ہونگے۔ اسکے علاوہ genocide watchاورhuman rights watchکی کشمیر میں جاری نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹس بھی ناقابلِ تردید دستاویزات ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارت نے کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کے کمزور وفاقی ڈھانچے کو کاری ضرب لگا دی ہے۔بی بی سی‘واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کوindia's dark moment in kashmirقرار دیا۔ دی گارڈین نے اسے کشمیر کو انڈین کالونی بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ برطانوی پارلیمان کے ارکان نے بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل و عام اور عورتوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی بھرپور مذمت کی۔ معزز اراکین نے کہا کہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے کشمیری ایک جہنم میں رہ رہے ہیں اور آج حقِ خود ارادیت تو درکنار ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشت گردی کیخلاف اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں آواز اُٹھائی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وفاقی حکومت ریاستوں کے مقابلہ میں یونین کے علاقوں کو کم خود مختاری دیتی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے مقامی آبادی اور سیاستدانوں سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ بی بی سی‘ بھارتی اسکالر ننوت چڈھا بہیر انے کہا کہ بھارت میں جمہوری اصولوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ امریتہ سین نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جمہوریت کے بغیر بھی کشمیر کی کوئی قرار داد ہوگی کیونکہ یہ جمہوریت کی راہ میں روکاوٹ ہو گی۔ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے اس بات پر فخر نہیں ہے کہ بھارت نے جمہوری اصول کو ہندوستان میں رائج کرنے کے بعد کہ جہاں وہ دُنیا بھر میں جمہوریت کیلئے جانا جانے والا ملک تھا لیکن اب ہم وہ ساکھ کھو چکے ہیں۔
امریتہ سین نے جموں و کشمیر کی مرکزی قیادت کو نظر بند رکھنے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کشمیر کے قائدین اور عوام کے نقطہ نظر سنے بغیر بھی انصاف حاصل کیا جا سکے گا۔ مسٹر شرما نے کہا کہ میں بھارتی قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کو آج آزاد کر دیا ہے کیونکہ جو معاہدہ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ معروف آسٹریلین کالم نویس سی جے ورلیمن نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مسلسل ظلم و ستم اور تناؤ کے باعث بالغ کشمیری دماغی مرض کا شکا ر ہو چکے ہیں۔جن متنازع علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ ہے ان میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔ سی جے ورلیمن‘ جموں وکشمیر کیلئے رائے دینے والے ٹوئیٹر اور فیس بُک کے صارفین کے اکاؤنٹس معطل کئے گئے۔ بھارت کی طرف سے بہیمانہ اقدام کی بہترین مثال اس وقت منظر عام پر آئی جب بُرہان وانی کی رائے کو ٹوئیٹر اور فیس بک سے ہٹا کر اکاؤنٹس کو معطل کیا گیا۔ نیلم کماری کی موت بھارتی ریاست کے ساکام ہیلتھ سسٹم پر ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ ایسی بہت سی خواتین حید ر آباد اور کشمیر میں بھی مر رہی ہیں۔ نواب آف جونا گڑھ نے بھی ہندوستان کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا۔ ہندوستان دراصل منافقانہ، دوہرے معیار، اقلیتوں اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا نام ہے۔نواب آف جونا گڑھ‘ بھارت کے تمام تر ناکام کوششوں اور ڈراموں کے باوجود دُنیا بخوبی جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی یوں دھجیاں اُڑانے والے بھارت کا مکروہ چہرہ اب دُنیا کے سامنے کھل کر آ چکا ہے۔ ای۔یو۔ڈس انفو لیب کی چشم کشا رپورٹ نے بھارت کے عالم گیر پروپیگنڈے کو بری طرح بے نقاب کیا۔ موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں 5فروری2023کو دُنیا بھر میں کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے زبردست مظاہرے دُنیا کو ایک بار پھر باور کرائیں گے کہ سات دہائیوں سے حل طلب یہ بین الاقوامی مسئلہ ایک انسانی اَلمیہ ہے اور علاقائی اور عالمی امن و استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ مغربی دارلحکومتوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے اور کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کی مسلسل پامالی کے خلاف اب مزید زور دار اور مؤثر آوازیں اُٹھیں گی۔